کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 69
پروگرام (روا داری اور مذہبی ہم آہنگی، تعلیمات ِنبوی کی روشنی میں ) میں اظہارِ ِخیال کرتے ہوئے کہا تھا :
”جہاں تک خود مسلمانوں کے درمیان مذہبی رواداری کے سلسلے میں میری تجویز ہے کہ جب تک دینی مدارس میں ایک مخصوص فقہ کی بجائے مذاہب ِاربعہ کی فقہ کا تقابلی مطالعہ نہیں کروایا جائے گا، اس وقت تک وسعت ِظرفی اور مذہبی رواداری کا جذبہ پروان نہیں چڑھے گا اور نہ ہی فکری جمود کا خاتمہ ہونا، ممکن ہوسکے گا۔ ہمارے مدارس میں تقابلی تعلیم کے اہتمام سے تعصب اور فکری جمود ختم نہیں ہورہا۔ اسی طرح ائمہ اور خطباءِ مساجد کے لئے کوئی معیار مقرر کیا جانا ضروری ہے۔ کم از کم ان کے لئے یہ تو لازمی قرار دیا جائے کہ وہ قرآن کے ترجمہ سے آشنا ہوں جبکہ ان کی ۷۰ فیصد اکثریت قرآن مجید کے مکمل ترجمہ سے بھی واقف نہیں ۔ دین ہماری متاع ہے اور ہم نے اسے مذہبی پیشواؤں کے سپرد کررکھا ہے۔ ا س کے سدباب کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ تعلیماتِ نبوی کی روشنی میں رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوسکے۔“
ان کے یہ خیالات ان کی قرآنِ مجید سے والہانہ محبت و شیفتگی، ملت ِاسلامیہ کے اتحاد کے لئے فکری جمود کو ختم کرنے کے شدید جذبہ کا اعلیٰ مظہر ہیں ۔
شہادت پر مذہبی اور سیاسی زعما کے تاثرات
ان کی شہادت کی خبر ملک کے تمام اخبارات میں شہ سرخیوں میں چھپی اورتمام مذہبی اور سیاسی طبقوں نے ان کی شہادت پر گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شہادت کو ایک عظیم سانحہ، امت کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان اور ان کے قتل کو ملک و ملت کے لئے نہایت گہری سازش کا شاخسانہ قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائے۔
ندائے خلافت کے مدیر جناب حافظ عاکف سعید نے اپنے اداریہ میں ان کی شہادت پر گہرے غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ
”جناب عطاء الرحمن ثاقب جیسے جوان ہمت و جوان سال خادمِ قرآن و عربی زبان کی شہادت ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے۔ انہوں نے بطورِ معلم و مدرس عربی زبان اپنے کیریئر کا آغاز قریباً دس سال قبل محترم ڈاکٹر اسرار احمد کے قائم کردہ کالج سے کیا تھا۔ یہ ان کی شخصی عظمت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ وہ برملا اس امر کا اعتراف کرتے تھے کہ عربی زبان کی تدریس کا یہ سہل انداز انہوں نے قرآن کالج سے ہی حاصل کیا تھا، بعد میں انہوں نے اسے تحریک کی شکل دے کر اپنی اُخروی کمائی میں بے پناہ اضافہ کا موجب بنایا۔ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیاجاسکتا کہ یہ سانحہ ملک و قوم کے خلاف گہری سازش کا شاخسانہ ہو۔ قرآنِ حکیم اور اس کی زبان کی تدریس وترویج میں ہمہ تن مصروف و منہمک ایک ایسے ایسے عالم دین کا قتل جو فرقہ وارانہ سرگرمیوں سے کوسوں دور ہو، خوف و ہراس اور بے چینی کی اس فضا کو کئی گنا زیادہ آلودہ اور دبیز کرنے کاموجب