کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 64
ابھی ثاقب صاحب کوجامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ میں بمشکل ایک سال ہی گزرا ہوگا کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے اس وقت کے مدیر ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن ترکی سے خصوصی تعلقات کی بنا پر جامعة الامام ہی کے خرچ پر انہیں اپنے معاون کی حیثیت سے پاکستان لے آئے اور انہیں اپنے اشاعتی ادارہ ’ترجمان السنہ‘ کے ساتھ منسلک کرلیا۔ یہیں سے ثاقب مرحوم نے اپنی جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ساتھ ہی ساتھ علامہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے معاون کی حیثیت سے جہاں ان کی عربی کتابوں کی تدوین کی خدمات انجام دیتے رہے، وہاں بعضکتب کا سلیس اور رواں اُردو زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ان خوبیوں کااعتراف علامہ شہید اپنی نجی مجلسوں میں بارہا کرتے۔ چنانچہ ایک موقعہ پر کہا کہ ”مجھے اللہ نے ایسا ذہین نوجوان عالم عطا کردیا ہے کہ اس کے ذریعے قرآن و سنت کے ابلاغ میں بہت مدد لی جاسکتی ہے۔“ تدریسی خدمات … فہم القرآن انسٹیٹیوٹ کا قیام ثاقب مرحوم نے علامہ شہید سے ایک طرف تحریکی اور سیاسی ذہن لیا تو دوسری طرف ہمیشہ ان کے سامنے حافظ عبدالرحمن مدنی کی ولولہ انگیز شخصیت رہی بالخصوص جامعہ رحمانیہ میں تعلیم او رمدنی صاحب کی معاونت کے دوران ان کے سامنے ادارہ کی وہ سرگرمیاں رہیں جن میں جامعہ کے انسٹیٹیوٹ آف ہائر سٹڈیز ان شریعہ اینڈ جوڈیشری کے زیر اہتمام وکلا اور جج حضرات کو قاضی کورس کروائے جاتے تھے جن میں جدید طریقوں پر مبنی عربی زبان کے کورس بھی تھے۔ ان کورسوں میں بیرونِ ملک تربیت یافتہ اساتذہ کے علاوہ سمعی و بصری آلات سے بھی مدد لی جاتی تھی اور یہ کوششیں اس جدید تعلیم یافتہ طبقہ پر ہوتی تھیں جو قانون کی مہارت کے باوجود عربی زبان سے بالکل نابلد تھا۔ قدیم و جدید کے امتزاج پر مشتمل یہ سرگرمیاں نہایتعروج پر تھیں ۔یہاں سے آپ کو جدید طبقہ میں کام کرنے کا تجربہ اور حوصلہ بھی ملا جس پر علامہ شہید کی رفاقت نے مہمیز کا کام دیا۔ علامہ صاحب کی شہادت کے بعدکچھ عرصہ آپ سیاسی سرگرمیوں سے وابستہ رہے اور مختلف تنظیموں میں فعال کردار ادا کیا، پھر پلٹا کھایا اور دوبارہ تدریس کی طرف رجوع کرلیا اور اس طرح آپ چند سال ڈاکٹر اسرار احمد کے قرآن کالج سے وابستہ رہے، جہاں عربی زبان کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ بعد ازاں ڈاکٹر راشد رندھاوا کے قرآن انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں سے آپ نے ایک خاص انداز پر فہم قرآن بذریعہ عربی زبان کورسز کا آغاز کیا۔ خدا داد ذہانت او رمنفرد طرز تدریس کی بدولت آپ کی کلاسوں میں حاضری روز بروز بڑھتی چلی گئی اورتجربے کے ساتھ ساتھ آپ کا طرزِ تدریس بھی مزید نکھرتا چلا گیا۔ قرآن انسٹیٹیوٹ کے بعد کچھ عرصہ آپ نے نوبل قرآن انسٹیٹیوٹ، جوہر ٹاؤن لاہور میں کام کیا، اس کے بعد اپنا