کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 63
لئے والد نے اپنے اس ہونہار بیٹے کو جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ فیصل آباد میں داخل کروا دیا۔ جہاں درسِ نظامی کی ابتدائی کلاسیں پڑھیں ۔ کچھ عرصہ بعد جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ،فیصل آباد سے جامعہ لاہور الاسلامیہ (جامعہ رحمانیہ) میں داخلہ حاصل کرلیا۔ محترم حافظ ثناء اللہ مدنی سے حدیث پڑھی اور دیگر اساتذہ سے علومِ شریعہ میں دسترس حاصل کی۔ ان کا شمار جامعہ کے ذہین طلبا میں ہوتاتھا۔ آپ علومِ دینیہ وعربیہ کے ساتھ ساتھ جامعہ کے نظام کے مطابق دوسری شفٹ میں عصری علوم بھی حاصل کرتے رہے۔ اور ۱۹۸۲ء کے میٹرک امتحان میں لاہور بورڈ سے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس اِعزاز کو اُس وقت جامعہ کے آرگن ماہنامہ ’محدث ‘ میں بھی شائع کیا گیا۔
جامعہ سے فراغت کے بعد ایک عرصہ تک مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب کے پرسنل اسسٹنٹ/سیکرٹری رہے اور اس دوران جامعہ میں بعض اسباق کے علاوہ مدنی صاحب کی سرپرستی میں بعض کتابوں کے اُردو تراجم بھی کرتے رہے جس میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الحسبة في الاسلام وغیرہ شامل ہیں ۔ اسی دوران ان کی شدید خواہش کی تکمیل کی غرض سے مہتمم جامعہ نے انہیں جامعہ الملک سعود (ریاض یونیورسٹی) کے ’عریبک ٹیچر ٹریننگ کورس‘ میں داخلہ دلوایا۔ ریاض یونیورسٹی میں مختلف موضوعات پر مقابلے ہوتے رہتے تھے۔ اس طرح کا ایک مقابلہ جس میں ابن تیمیہ کی کتاب الحسبة في الاسلام کو یاد کرکے سنانا تھا۔آپ نے بھی اس میں حصہ لیا اور اس میں اوّل پوزیشن حاصل کرکے اسی یونیورسٹی سے انعام حاصل کیا اور اس خوشی میں مولانا عبدالرحمن مدنی کی ریاض آمدپر’تنظیم برائے اہل حدیث طلبا‘ (ریاض یونیورسٹی) جس کے امیر حافظ عبدالسلام فتح پوری (موجودہ شیخ التفسیر جامعہ رحمانیہ)تھے، کی طرف سے انہیں عشائیہ دیا گیا۔
یہ تربیتی کورس چونکہ تین ماہ کے دورانئے کا تھا۔ اس لئے جامعہ رحمانیہ نے جناب عطاء الرحمن ثاقب کو ان کی ذہانت اور عربی زبان سے خصوصی لگاؤ کے پیش نظر انہیں دوبارہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ریاض کی ایک دوسری اسلامی یونیورسٹی امام محمد بن سعود کے کلیہ اُصول الدین میں داخل کروا دیا۔ اس طرح عطاء الرحمن ثاقب وہ واحد طالب علم ہیں جنہیں جامعہ رحمانیہ نے دو دفعہ سعودی عرب میں تعلیم کے لئے بھیجا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر سے وابستگی
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کو اپنی تحریکی اور سیاسی مصروفیات کی بنا پر کسی ایسے نوجوان ساتھی کی ضرورت تھی جو عربی کا اچھا ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ ٹائپ وغیرہ کا بھی ماہر ہو۔ یہ صلاحیتیں جناب عطا ء الرحمن ثاقب میں اعلیٰ ذہانت کے ساتھ بخوبی موجود تھیں ، اس شدید ضرورت کے پیش نظر ان کا رابطہ رحمانیہ کے ایسے طلبا سے رہتا تھا جو عربی زبان کے ساتھ ساتھ ایسی تکنیکی مہارت بھی رکھتے ہیں ۔