کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 61
ہونے کی آس لگائے کھڑے ہیں لیکن سپاہِ حرم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، اس لیے مزید افراد کو اندر آنے کی اجازت نہ مل سکی۔ وعدۂ فردا پر ٹرخائے ہوئے ان افراد سے نجانے یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے !!
اس دفعہ غلافِ کعبہ کا بھی چہار اطراف سے جائزہ لیا۔ سونے کے تاروں سے نقش کنندہ تحریر میں وہ تمام آیات شامل تھیں جو بیت اللہ الحرام، تطہیر کعبہ ،حج بیت اللہ، نداءِ ابراہیمی اور توحید ِباری سے متعلق ہیں ۔جگہ جگہ اسماءِ حسنیٰ منقش ہیں ۔موجودہ غلافِ کعبہ میں کلام الٰہی کے علاوہ صرف یہ تحریر شامل ہے:
صنعت هذه الکسوة في مکة المکرمة وأهداها إلي الکعبة خادم الحرمين الشريفين الملک فهد بن عبدالعزيز آل سعود … تقبل اللَّه منه عام ۱۴۲۲ھ
” یہ غلاف مکہ مکرمہ میں تیار کیاگیا ؛ جسے خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آلِ سعود نے ۱۴۲۲ھ میں کعبہ کو ہدیتاً پیش کیا … اللہ ان سے قبول فرمائے۔“
جمعیت ِاہل حدیث کا استقبالیہ
کانفرنس کی مناسبت سے جناب فضل الرحمن نے جدہ کے احباب ِجمعیت اہل حدیث کے تعاون سے شاہین ریسٹورنٹ میں بلادِ ثلاثہ (پاکستان، ہندوستان اور برطانیہ)کے وفودِ جمعیت کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ پاکستا ن سے پروفیسر ساجد میر، ہندوستان سے مولانا عبد الوہاب خلجی ،برطانیہ سے راقم الحروف اور مولانا شعیب احمد میر پوری اور ان کے دو رفقا اور مکہ مکرمہ سے جناب شیخ وصی اللہ خصوصی مہمان تھے۔جامعہ سلفیہ بنارس کے ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ، شیخ الجامعہ مولانا رضاء اللہ اور جمعیت اہل حدیث ہند کے نومنتخب ناظم اعلیٰ مولانا اصغر علی بھی مدعو تھے، لیکن بوجوہ شریک نہ ہو سکے۔عشا کے بعد ہونے والی اس باوقار تقریب میں شرکاءِ محفل کا تعارف کرایا گیااور ہم میں سے ہر شخص نے دعوت الی اللہ یا جمعیت کے کام کے بارے میں چند کلمات کہے۔ آدھی رات ہونے کو تھی کہ یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی اور کوئی ایک بجے رات ہم اس خوشگوار محفل کی یادیں سمیٹتے مکہ میں ا پنے مستقر واپس پہنچے۔
امامِ کعبہ سے ملاقات
مکہ کے قیام کے دوران فضیلة الشیخ محمد بن عبد اللہ السبیل کے درِ دولت پر ان کے جوان بیٹے، خطیب ِحرم، استادِ جامعہ اُمّ القری شیخ عمر السبیل کی ناگہانی وفات پر بغرضِ تعزیت جانا ہوا۔ شیخ صبروعزیمت کے پہاڑ نظرآئے۔ باتوں سے ذرا فراغت ہوئی تو اپنے بیٹے عبد اللطیف سے ابن المفلح کی ’الآداب الشرعیہ ‘پڑھنے کو کہا۔وہ کتاب پڑھتے جاتے اور شیخ موقع ومحل کی مناسبت سے شرح کرتے جاتے۔
شیخ سے ایک دوسری ملاقات بھی تھی اور برادرم وصی اللہ کی معیت میں دوبارہ ان کے گھر کا قصد بھی کیا لیکن اس روز شدید اور موسلا دھار بارش کی بنا پر راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ مکہ سے ’عوالی‘ کا راستہ کوئی زیادہ نہیں لیکن اس روز کاروں کا سیل رواں ابر ِرحمت کے طوفانِ بلاخیز کے سامنے جم نہ سکا اور پھر گاڑی کا رُخ واپس مکہ کی طرف پھیرنا پڑا۔ وما تشاوٴون إلا أن يشاء اللَّه ! یارِ زندہ صحبت باقی !