کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 6
رہنے کی شدید خواہش اور اس پر موقع پرست خوشامدیوں کا ہجومِ کثیر، حکمرانوں کو حالات کی حقیقت پسندانہ تصویر دیکھنے سے قاصر رکھتا ہے۔جنرل مشرف اگر محض اپنی اصلاحات اور پالیسیوں کو تسلسل عطا کرنے کے لیے مزید پانچ سال کے لیے صدر رہنے کا جواز بتلاتے ہیں ، تو اہل پاکستان کی خاموش اکثریت ان اصلاحات اور انقلابی اقدامات کے تسلسل کے محض خیال ہی کو ایک خوف ناک خواب (Nightmare)سمجھتی ہے،مگر بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ نہ تو اس خاموش اکثریت کے نقطہ نظر کو جائز مقام دیتے ہیں او رنہ ہی حکمران طبقہ اس خاموش اکثریت کی بات کو سننے پر آمادہ نظر آتا ہے کیونکہ حقائق کے آئینے میں جھانکنے کا حوصلہ بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف اپنے آپ کو حقیقت پسند سمجھتے ہیں اور دوسروں کے نقطہ نظر کو تحمل سے سننے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ، یہ بات ان کی طبیعت پر شاید ناگوار گزرے گی مگر ہم خاموش اکثریت کی ترجمانی کرتے ہوئے درج ذیل معروضات ان کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں
(i) موجودہ حکومت کی بیشتر پالیسیوں کا ماخذ ومصدر اسلامی تعلیمات کی بجائے مغرب کی لبرل اقدار ہیں ، تہذیب ِمغرب کی اندھی تقلید کسی اسلامی معاشرے میں اصلاحات کی بنیاد قرار نہیں دی جاسکتی۔ جنرل صاحب اس ملک میں جس طرح کا انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں اس کی روح اسلامی شریعت اور مسلم ثقافت سے ماخوذ نہیں ، بلکہ اس کے پیچھے یورپی لبرل ازم اور سیکولرازم کے اساسی اصول کارفرما نظر آتے ہیں ، اسلامی قانون وشریعت کے حدود اور وسعتوں کے متعلق موجودہ حکومت کا عمومی فہم اصلاح طلب ہے۔
(ii) اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کو موجودہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے مگر اس نئے نظام میں جس طرح عورتوں کی شراکت کے تناسب کوقانونی تحفظ عطا کیا گیا ہے، اس کی تائید اسلامی شریعت تو کجا مغرب کے مروّجہ سیاسی نظام سے بھی نہیں ملتی۔ دنیا کی کوئی جمہوری،اشتراکی،سیکولر اور مسلم ریاست نہیں ہے ، جہاں عورتوں کو ۳۳ فیصد تناسب حاصل ہو۔اسلامی تعلیمات کی جس قدر بھی لبرل اور ترقی پسندانہ تعبیر وتشریح کی جائے، مگر یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اسلام نے عورت کا اصل مقام اس کے گھر کو ہی قرار دیا ہے۔ اسلام خاندانی نظام کی تباہی کی قیمت پر عورتوں کی سیاسی اُمور میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا۔
(iii) مخلوط انتخابات کا نفاذ بھی نظریہٴ پاکستان کی فکری اساس سے متصادم ہے۔ اس پالیسی میں اقلیتوں کا حقیقی مفادبھی نظر نہیں آتا، بظاہر ایک ’مخصوص اقلیت‘ کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے اس طریقہ کار کو نافذ کیا گیا ہے۔پاکستان کا قیام ’متحدہ قومیت‘کی بجائے مسلم قومیت کے تصور پر عمل میں آیا تھا ، اور یہ طریقہ اس اُصول سے متصادم ہے۔
(iv) ضلعی سطح پر نئے نظام کا اجرا بلاشبہ ایک اہم انتظامی تبدیلی ہے ، مگر اس تبدیلی کا عوام کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے نہ انصاف کی فراہمی میں کوئی بہتری آئی ہے۔ نیا نظام بے حد پیچیدہ اور مبہم ہے۔ ہر