کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 54
ایک موقع پر جب بوسنیا کے رئیس العلما والمشائخ جناب مصطفی سیرچ نے سابق صدر بوسنیا جناب عزت بیگووچ کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہم بوسنیا کے تلخ تجربہ کی روشنی میں یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ عربوں کو اسرائیل سے صلح وآتشی کا راستہ اختیار کرلینا چاہئے تو شیخ یوسف قرضاوی فوراً مائیک پر آئے اور گویا ہوئے :
” میں ابتدا میں کہہ چکا ہوں کہ عالم اسلام کے اس بھر پور اجتماع میں سیاستدان ضرور شریک ہوں لیکن سیاست کا چولا اُتار کر ، اور صرف ایک مفکر یا عالم کی حیثیت سے ، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جناب عزت بیگووچ نے اپنے اس موقف میں ایک سیاستدان کا روپ اختیار کیا ہے۔ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ فلسطینیوں پر جنگ مسلط کی گئی ہے اور بفحوائے قولِ ربانی ﴿کُتِبَ عَلَيْکُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ کُرْهٌ لَّکُمْ وَعسٰی أَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْرٌ لَّکُمْ﴾
” قتل وقتال تم پر فر ض کیا گیا ہے، حالانکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔“ اس جنگ میں ثابت قدم رہنا ہی مطلوب ہے ۔ یہ عجیب بات ہوگی کہ دشمن آپ کو مرنے مارنے پر تلا ہو اور آپ امن وآشتی کا نعرہ بلند کرتے رہیں ۔“
جناب مصطفی سیرچ فوری جواب تو نہ دے پائے لیکن اگلے اجلاس میں انہوں نے وضاحت کی کہ میرے ممدوح جناب شیخ قرضاوی،عزت بیگووچ کی بات صحیح طور پر سمجھ نہیں پائے ہیں ۔ ہمارا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ٹینکوں کامقابلہ پتھروں سے نہیں کیاجا سکتا۔ اس لیے فی الحال ہمارے پاس دوسرا کوئی متبادل حل موجود نہیں ہے لیکن ہم جہاد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور میں مفتی فلسطین شیخ عکرمہ صبری سے درخواست کرو ں گا کہ وہ میرا نام مجاہدین کی فہرست میں لکھ دیں اور جب بھی وہ آواز دیں گے، میں حاضری کے لیے بے تاب رہوں گا۔
یمن کے ایک درویش منش عالم شیخ عمر سیف اپنی گرجتی برستی آواز میں جہاد کی دعوت دے رہے تھے اور واشگاف الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ یہ سب ٹینک، توپیں اور جہاز جن کے انبار ہم اپنے اپنے ملکوں میں لگا رہے ہیں ، کس لیے ہیں ؟ کیا اپنوں کو دبانے کے لیے یا دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے ؟ انہوں نے عالم اسلام کی بے حسی، عرب اور مسلم ممالک کی جہاد سے ہچکچاہٹ، اور امریکہ اور اس کے حواریوں کی دیدہ دلیری کی جی بھر کر مذمت کی۔ ان کے الفاظ تازیانہ بن کر دل ودماغ کے تاروں کو جھنجھوڑ رہے تھے لیکن فغانِ درویش صدا بصحرا ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔
ایران کے آیت اللہ تسخیری نے بھی اعداءِ اسلام کی ان مذموم حرکتوں کو للکارا جو بیت المقدس کے تقدس اور اہل فلسطین کی آبرو کو داغدار کرنے کے لیے اسرائیل کے ہم نوا بن چکے ہیں ۔
گجرات میں مسلمانوں پر جو قیامت بیت گئی،اس کا ذکر کسی مقرر کی زبان پر نہ آیا تھا، اس لیے راقم الحروف نے دو منٹ کے مختصر وقت میں یہ الفاظ عربی جامہ میں منتقل کر کے حاضرین کے گوش گزار کر دیے :