کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 53
رپورتاژ ڈاکٹر صھیب حسن، لندن ”اُمت ِمسلمہ اورگلوبلائزیشن“ کے موضوع پر رابطہ عالم اسلامی کی چوتھی عالمی کانفرنس٭ (کعبہ مشرفہ میں داخلے کی سعادت اور اس کا مختصر احوال) محرم ۱۴۲۳ھ /اپریل ۲۰۰۲ء کے اواخر میں رابطہ عالم اسلامی نے اپنی چوتھی عالمی کانفرنس مکہ مکرمہ میں منعقد کی جس میں اطرافِ عالم سے پانچ سو کے قریب علما ،قائدین اور سیاستدانوں نے شرکت کی۔ موضوعِ سخن ” اسلام اور عالمگیریت(گلوبلائیزیشن)“ چنا گیا تھا۔ کانفرنس کے افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں کے علاوہ نو اجلاس ترتیب دیئے گئے تھے جس میں کانفرنس کے مرکزی موضوع کے علاوہ کئی دوسرے موضوعات کو جگہ دی گئی تھی۔ کانفرنس ایسے وقت منعقد ہو ئی جبکہ فلسطین میں مسلمانوں کا خون بیدردی سے بہہ رہا ہے۔ اس لیے پہلے سے ترتیب شدہ پروگرام میں معمولی سی تبدیلی کے بعد ایک اجلاس صرف بیت المقدس کے لیے وقف کیا گیا۔ اتفاق سے یہ وہی اجلاس تھا جس میں اصلاً مجھے اور دو دوسرے مندوبین کو ’دیارِ مغرب میں مسجد کا کردار‘ پر اپنے اپنے مقالات کا خلاصہ پیش کرنا تھا لیکن اس بروقت تبدیلی کی بنا پر مجھے اس مقالہ کی تلخیص پیش کرنے کا موقع تو نہ مل سکا لیکن اپنے مقالہ کو مطبوع مقالات کے ضمن میں دیکھ کر اطمینان حاصل ہوا۔ ہر اجلاس میں مقالات کی تلخیص کے بعد حاضرین کو دو یا زیادہ سے زیادہ تین منٹ کے لیے اپنے خیالات کے اظہار کاموقع دیا جاتا رہا جس میں بیشتر مندوبین اپنے مافی الضّمیر کی ادائیگی کرتے رہے ۔ اس مختصر سے مضمون میں کانفرنس کی ساری کاروائی کا احاطہ تو مقصود نہیں ہے بلکہ اصلاً کانفرنس اور تبعاً اقامت ِمکہ کے چند تاثرات کا اظہار مقصود ہے ۔ قاری شیخ عبد اللہ بَصفر کی مسحور کن تلاوت سے افتتاحی اجلاس کا آغاز ہوا اور پھر اس اجلاس سے رابطہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی، جمہوریہ مصر کے مفتی اعظم سید طنطاوی، مالدیپ کے سربراہ مامون عبد الوہاب، سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آلِ شیخ اور امیر مکہ شہزادہ عبد المجید بن عبد العزیز آلِ سعود نے خطاب کیا۔ یہ بات باعث ِاطمینان رہی کہ ان تمام حضرات کی تقاریر میں فلسطینی عوام پر یہودیوں کی مسلط کردہ جنگ کا تذکرہ نمایاں رہا۔ عالم اسلام کی جانی پہچانی شخصیت اور قطر میں مقیم مصری عالم ڈاکٹر شیخ محمد یوسف قرضاوی نے مسئلہ فلسطین کو نمایاں کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔