کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 52
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی ایک قومی معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے مطابق حکومت ایک طے شدہ دستور کے مطابق تمام معاملات چلانے کی پابند ہے اور اس سے کسی بھی انحراف کو عدالت کے ذریعے غیر قانونی قرار دلوایا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی ریفرنڈم کو اسلامی عمل قرار دے کر آئین کی گرفت سے باہر نکالنا قرین انصاف نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی ہر شخص پر واضح ہے کہ ۱۹۷۳ء کا آئین ایک ایسا دستور ہے جس پر اسمبلی میں موجود تمام قومی اور علاقائی جماعتوں اور آزاد نمائندگان نے بلا جبر و اِکراہ دستخط کئے تھے۔ اور آج تک قومی حلقوں میں یہ بات بہ اصرار کہی جارہی ہے کہ اس متفقہ آئین کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔ اس نقطہ نظر سے بھی دیکھیں تو کہا جاسکتا ہے کہ پوری پاکستانی قوم چونکہ اس آئین پر متفق ہے، اس لئے اس دستاویز کو قانونی اور اسلامی لحاظ سے قومی ’اجماع‘ کی طاقت بھی میسر ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتیں آئین کی اسلامی روح اور ضوابط کی بارہا توثیق و تصدیق کرچکی ہیں ۔ اس لئے آئین میں موجود صدارتی انتخاب کے طریقے کو ایک طرح سے غیر اسلامی اور اسی آئین میں دیئے گئے ریفرنڈم کے انداز کو اسلامی قرار دے کر صدارتی الیکشن سے روگردانی اسلامی اصولوں کے معیار پر پسندیدہ قرار نہیں دی جاسکتی۔ جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم کے حوالے سے تقریباً تمام قابل ذکر دینی جماعتوں ، وکلا کی پاکستان بھر میں تمام منتخب تنظیموں اور اہل علم وصحافت کی مخالفت کا سامنا ہے اور وہ اس سلسلے میں اظہارِ حیرت اور اظہارِ ناراضگی بھی عوامی اجتماعات میں فرما چکے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان تینوں دانشور حلقوں کی بڑی اکثریت ریفرنڈم کو جمہوریت ، ملک، قوم اور خود جنرل پرویز مشرف کے لئے نقصان دہ سمجھتی ہے اور تو اور فوجی حکومت کی عمومی طور پر حمایت کرنے والے دانشور بھی جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم کے فیصلے پر نظرثانی کامشورہ دے رہے ہیں ۔ بھارتی جارحیت اور ہندو ذہنیت کے پیش نظر فوج کے بارے میں خصوصی طور پر نرم گوشہ رکھنے والے ممتاز کالم نگار عبدالقادر حسن نے جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم پر اپنے کالم میں یہ بھید بھرا جملہ لکھا تھا کہ یہ ریفرنڈم صبح ۱۱ بجے تک منصفانہ تھا اور ۱۱ بجے کے بعد آزادانہ ہوگیا تھا۔ محترم ارشاد احمد حقانی جیسے دانشور نے عبدالقادر حسن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے موٴرخہ ۱۱/اپریل کے کالم ’حرفِ تمنا‘ میں لکھا ہے کہ جنرل پرویزمشرف کا ریفرنڈم صبح سات بجے ہی سے آزادانہ ہوگا کیونکہ یہ ایک مادر پدر آزاد الیکشن ہوگا۔ انہوں نے آگے چل کر لکھا ہے کہ ”توقع تو یہ تھی کہ جنرل مشرف حقیقی اور مثبت معنوں میں اپنے پیش رو فوجی حکمرانوں سے بہتر روایات قائم کریں گے لیکن افسوس کہ بعض حوالوں سے وہ ان کے ناقابل رشک ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں ۔“