کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 51
جنرل مشرف کے حق میں ’فی سبیل اللہ‘ ریفرنڈم مہم چلانے اور ان کے جلسوں میں کثرت سے اپنی جماعت کے پرچم لہرانے والے ایک نام نہاد دینی رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ ریفرنڈم عین اسلامی عمل ہے۔ جبکہ ایک اور مولانا نے جنہیں ریفرنڈم ہی کے مبارک مہینے میں وزارت سے نوازا گیا ہے، یہ فرمایا ہے کہ خلافت راشدہ کے دوران بھی ریفرنڈم ہوا کرتا تھا۔
اس سے قبل بھی جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب ان کی حکومت کو نظریہٴ ضرورت کے تحت قانونی بنانے کی جنگ اعلیٰ عدالتوں میں لڑی جارہی تھی، اچانک یہ نکتہ اٹھا دیا گیا تھا کہ ’نظریہٴ ضرورت‘ عین اسلامی ہے لہٰذا اسے آئینی دفعات پر فوقیت حاصل ہے۔ نظریہٴ ضرورت کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کی بحث عدالت تک بھی جاپہنچی۔ سپریم کورٹ کے ۹ معزز ججوں پر مشتمل فل بنچ کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ ان سب نے نظریہٴ ضرورت کو ریاستی ضرورت کا نظریہ قرار دے کر جنرل ضیاء الحق کے حق میں فیصلہ کردیا۔ اس فیصلے میں باقی جج صاحبان کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے ایک فاضل جج جسٹس افضل چیمہ نے مزید صراحت یہ کی کہ یہ نظریہ کوئی مغربی نظریہ نہیں ہے بلکہ عین اسلامی نظریہ ہے اور اس کا جواز تو قرآنِ حکیم سے ثابت ہے۔ جسٹس چیمہ نے اپنے فیصلے میں قرآن کی کچھ آیات بھی نقل کیں ۔ اس طرح نظریہٴ ضرورت یا ریاستی ضرورت کے نظریے کو عین اسلامی ہونے کا شرف بھی حاصل ہوگیا۔
یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ ریفرنڈم ۲۰۰۲ء کی آئینی حیثیت سے متعلق مقدمہ کی سماعت کرنے والے ۹ معزز ججوں کے فل بنچ کے سامنے ریفرنڈم کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا سوال بھی اٹھ کھڑا ہو اور مذکورہ بالا دونوں بزرگوں کی مدد سے حکومتی وکلا ریفرنڈم کی دینی حیثیت کو اس مستحکم طریقے سے دلائل کے ساتھ ثابت کردیں کہ مخالف قانون دان منہ دیکھتے رہ جائیں اور صدارتی ریفرنڈم نہ صرف آئینی بلکہ اسلامی بھی قرار پاجائے اور یار لوگ اس کے ساتھ ایک تقدیس کا پہلو بھی ٹانک دیں ۔ شاعر نے شاید ایسی ہی صورتِ حال کے پیش نظر دین سے نابلد سیاست دانوں پر مندرجہ ذیل الفاظ میں اظہارِ حیرت کیا تھا:
نہ جانے کس لئے پیر سیاست دلوں میں بد گما نی ڈالتے ہیں ؟
مقدس ، ریفرنڈم کا عمل ہے فرشتے ووٹ اسمیں ڈالتے ہیں !!
اسلام میں اجماع اور معاہدات کی پاسداری ایک قانونی فریضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام میں سود اپنی تمام تر اشکال و اقسام سمیت حرام ہے۔ بہت سے لوگوں نے سودی قرضوں کو اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ قرض دینے والے ادارے اوربنک وغیرہ کی طرف سے سود کی وصولی کو غیر قانونی اور غیر اسلامی قرار دیاجائے۔ لیکن عدلیہ نے بے شمار مقدمات میں اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور قرار دیا کہ یہ سود دونوں فریقین کے درمیان بہ رضا و رغبت ایک معاہدے کی بنیاد پر وصول کیا جارہا ہے اور چونکہ معاہدہ کرتے وقت بھی فریقین کو اسلامی قوانین کا علم تھا، اس لئے اب وہ اپنے معاہدے کے پابند ہیں۔