کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 50
ریفرنڈم آرڈر کے مذکورہ بالا لوازمات پر الیکشن کی بدعنوانیوں سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجوزہ طریقہ کے تحت کوئی بھی شخص مختلف جگہوں پر بآسانی کئی کئی بار ووٹ ڈال سکتا ہے۔ اگر بوگس ووٹوں کی روک تھام کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے یہ دلیل دی جائے کہ ہر ووٹر کے انگوٹھے پر اَن مٹ سیاہی کا نشان لگایا جائے گا تو اس پر یقین اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ ہر قومی الیکشن میں یہ تجربہ کیا جاتا ہے اور ہمیشہ ناکام رہتا ہے اور اس بات کا کون ضامن ہے کہ اَن مٹ سیاہی واقعی اَن مٹ ہوگی اور پھر سرکاری اہلکاروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ بوگس ووٹنگ کو روکنے کے لئے اتنی زیادہ سخت گیری کا مظاہرہ کریں اور اپنی نوکریوں کو خطرے میں ڈال لیں ۔ جہاں مرضی جاکر ووٹ ڈالنے کی اجازت سے خواتین کے معاملے میں جی بھر کر دھاندلی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی خواتین کی اکثریت اسلامی اصولوں کی روشنی میں شناختی کارڈ پر اپنی تصاویر لگوانے سے گریز کرتی ہیں اور دیہات میں تونوے فیصدی سے زیادہ خواتین کے شناختی کارڈ تصاویر کے تکلف سے مبرا ہیں ۔ ایک ناظم، کونسلر، پولیس کا سپاہی یا نمبردار تمام خواتین کے کارڈ جمع کرکے شناختی کارڈ نہ رکھنے والی خواتین اور بوگس ووٹ ڈالنے والی پیشہ ور عورتوں کے ذریعے جہاں چاہے اور جتنے چاہے ووٹ ڈلوا سکتا ہے۔ شناختی کارڈ کے مطابق پہچان کا سنجیدہ اور موٴثر نظام موجود نہ ہونے کے سبب مردوں کے ووٹ بھی دھڑا دھڑ پول کئے جاسکتے ہیں اور اگر ووٹ کی پرچی کے دوسری طرف شناختی کارڈ کا نمبر درج نہ کرنے کی بھی چھوٹ موجود ہو( جیسا کہ ریفرنڈم آرڈر سے ظاہر ہورہاہے) تو پھر کسی ووٹر کی حاجت ویسے ہی نہیں رہتی اور ووٹ پول کرنے کا تمام تر فریضہ پولنگ سٹیشنوں پر مقرر اہلکار از خود سرانجام دے سکتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وائس آف جرمنی نے اپنی نشریاتی سروس میں یہ پیشین گوئی تک کردی ہے کہ جنرل پرویز مشرف ، جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق سے زیادہ ووٹ حاصل کریں گے اور یہ بات بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ وہ پاکستان بھر کے رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد سے بھی زیادہ ووٹ لے جائیں ۔ جس الیکشن میں صرف ایک امیدوار ہو، صرف ایک بیلٹ بکس مہیا کیا جائے۔ مدمقابل قوتوں کا انتخابی عمل میں سرے سے کوئی کردار نہ ہوبلکہ انہیں اس عمل سے باہر رکھنے کا بطورِ خاص اہتمام کیا گیا ہو۔ کسی دوسرے امیدوار کو سامنے آنے کی اجازت نہ ہو۔ کاغذات نامزدگی نہ ہوں ۔ امیدوار کی نااہلیت پر اعتراض دائر کرنے کا قانونی حق حاصل نہ ہو۔ کوئی انتخابی فہرست پیش نظر نہ ہو۔ کوئی الیکشن ٹربیونل نہ ہو۔ جہاں وزیر مواصلات کے حکم کے مطابق … اس وقت تک کوئی گاڑی، بس روانہ نہ ہوپائے جب تک سب مسافر ووٹ نہ ڈال لیں اور جس الیکشن کو کسی عدالت میں چیلنج نہ کیا جاسکتا ہو، اس الیکشن میں وائس آف جرمنی کی پیشین گوئی پوری ہوجانا کچھ عجب نہیں بلکہ عین ممکن دکھائی دیتا ہے!! چلتے چلتے چند باتیں اسلام اور ریفرنڈم کے حوالے سے …