کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 49
جہاں تک ریفرنڈم ۲۰۰۲ء کے قانونی اور آئینی ہونے کا تعلق ہے۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کے روبرو کم از کم چھ درخواستیں زیر سماعت ہیں ۔ جن کا فیصلہ عدالت ِعظمیٰ کا فل بنچ اپنے ضمیر، آئین، قانونِ ضرورت اور پی سی او کے تحت اُٹھائے ہوئے حلف کی روشنی میں کرے گا۔ زیرالتوا مقدمات کے بارے میں عدالتی رویوں پر قبل از وقت کوئی رائے دینا قانونی آداب کے منافی ہے۔ کسی مقدمے کا فیصلہ سامنے آجانے پر فیصلے کی خوبیوں اور خامیوں پر مدلل اور مثبت اظہارِ خیال کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ میں زیر سماعت معاملات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ریفرنڈم کی شفافیت پر کچھ گفتگو ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔
جنرل محمد ایوب خان اور جنرل محمد ضیاء الحق نے جس انداز میں ریفرنڈم برپا کروائے، قوم کی نظر میں ان کی حیثیت کبھی بھی ایک مذاق سے زیادہ نہیں رہی۔ جنرل ایوب خان نے ۹۳ فیصدی سے زائد جبکہ جنرل ضیاء الحق نے ۹۷ فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ خود جنرل پرویز مشرف اپنے ریفرنڈم جلسوں میں مذکورہ دونوں ریفرنڈموں کو ایوب خان اور ضیاء الحق کے بیٹوں کی موجودگی میں غیر شفاف اور منافقانہ قرار دے چکے ہیں ۔ ایک غیر آئینی عمل اگر غیر شفاف بھی ہو تو اس کا اعتبار کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ایک مستقل تضحیک اس کا مقدر بن جایا کرتی ہے۔
شفافیت کے حوالے سے بھی ریفرنڈم ۲۰۰۲ء کے سلسلے میں نافذ کئے جانے والا ریفرنڈم آرڈر مطالعے کے لئے خاصا دلچسپ مواد مہیا کرتا ہے۔ اس آرڈر کے نمایاں پہلو حسب ِذیل ہیں :
۱) ۱۸ سال کا ہر شہری جس کے پاس شناختی کارڈ ہوگا، ووٹ ڈالنے کا اہل ہوگا۔
۲) ہر شہری پورے پاکستان میں کہیں بھی ووٹ ڈال سکے گا۔ اپنے رہائشی حلقے میں ووٹ ڈالنے کی پابندی نہیں ہوگی۔
۳) ریفرنڈم کا سوال اُردو میں ہوگا۔ صوبہ سندھ میں یہ سوال سندھی میں لکھنے کی بھی اجازت ہوگی۔
۴) مسلح افواج کے افراد، بیرونِ ملک پاکستانی، جیلوں میں بند قیدی اور مخصوص سرکاری ملازم بذریعہ ڈاک جواب بھجوا سکیں گے۔
۵) کسی ووٹر لسٹ پر نام کا اندراج نہ ضروری ہوگا، نہ کوئی ووٹر لسٹ پولنگ سٹیشن پر موجود ہوگی۔
۶) بوگس ووٹنگ کی روک تھام صرف سرکاری نامزد کردہ اہلکاروں ہی کے ذمہ ہوگی۔
(ریفرنڈم مخالف سیاسی جماعتوں یا عوامی نمائندوں کے اعتراض اور پذیرائی کا کوئی موٴثر طریقہ آرڈر میں موجود نہیں ہے۔)
۷) پولنگ بوتھ زیادہ سے زیادہ اور عوامی جگہوں پر بنائے جائیں گے۔(ایک خبر کے مطابق ان جگہوں میں ٹی وی سٹیشن، سیر گاہیں ، تماشاگاہیں ، ریلوے اسٹیشن ، بس سٹاپ اور چڑیا گھر بھی شامل ہیں )