کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 47
حاصل کر رہا ہو۔ماسوائے ان عہدوں کے جن کی چھوٹ آئین میں دی گئی ہے۔ (نوٹ: آئین میں دی گئی چھوٹ کا ذکر ذیلی دفعہ ’O‘ میں موجود ہے۔ جس کے مطابق حکومت کے جز وقتی ملازمین، نمبرداروں اور صرف قومی خاکساروں وغیرہ کو نااہلیت سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے) اب آئیے صدر کے انتخاب کے طریقے کی طرف… آئین میں بالکل واضح طور پر تحریر کردیا گیا ہے کہ صدر براہِ راست عوام کے ووٹوں یا ہاں کہنے سے منتخب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ عوام براہِ راست اس انتخاب میں حصہ لینے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ یہ فریضہ آئین نے قومی اسمبلی ، سینٹ اور چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کے معزز ارکان کو سونپا ہے کہ وہ جس شخص کو مناسب سمجھیں ، پاکستان کا صدر منتخب کریں ۔ اس طرح صدر کے لئے تیسری اہلیت بھی بالکل صاف ہے یعنی کوئی ایسا شخص صدر منتخب نہیں ہوسکتا جو حکومت پاکستان کا باقاعدہ ملازم ہو۔ اور ذیلی دفعہ K کے مطابق اسے ملازمت سے باعزت طور پر الگ ہوئے کم ازکم دو سال نہ گزر چکے ہوں ۔ آئین کی متعلقہ دفعات کے مطالعے اور تجزیے سے دو باتیں روزِ روشن کی طرح سامنے آجاتی ہیں : (۱) یہ کہ آئین میں دی گئی ریفرنڈم کی سہولت کو جواز بنا کر صدارتی نامزدگی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ یہ اختیار صرف کسی قومی اہمیت کے معاملے میں قوم کی رائے لینے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر صوبائی اختلافات کے پس منظر میں یہ سوال کہ کالا باغ ڈیم بنایا جانا چاہئے یا نہیں ؟ یا پھر یہ سوال کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کسی تیسرے ملک کی ثالثی قبول کرلی یا جائے یا نہیں ؟ یا پھر قبائلی علاقوں کو صوبائی درجہ دے دیا جائے یا نہیں ؟ وغیرہ وغیرہ (۲) یہ کہ جنر ل پرویز مشرف چونکہ حکومت ِپاکستان کے تسلیم شدہ حاضر سروس ملازم ہیں اور بطورِ ’جنرل‘ تنخواہ اور دیگر مراعات کا مفاد حاصل کررہے ہیں اور اپنی جرنیلی آئندہ بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس لئے آئین کی صراحت کے مطابق وہ صدر بننے کے سلسلے میں مکمل طور پرنااہل ثابت ہوتے ہیں ۔ اور ریفرنڈم کی سہولت بھی ان کی اس نااہلیت کا مداوا نہیں کرسکتی۔ حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ ریفرنڈم ایک آئینی روایت ہے اور جنرل پرویز مشرف اس آئینی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ ہر ذی شعور شہری یہ جانتا ہے کہ قانونی اور آئینی روایات کو صرف قانونی اور آئینی اصولوں اور آداب ہی کی روشنی میں آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ ریفرنڈم کی روایت کو عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے ؛ ۱۹۲۳ء میں جنوبی افریقہ کمیشن چارٹر کے خاتمے پر جنوبی یوریشیا میں ریفرنڈم کروایا گیا اور سوال پوچھا گیا کہ وہ ساؤتھ ایشین کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ تو لوگوں نے نہیں کی حمایت میں ووٹ ڈالے، جس کے نتیجے میں جنوبی روڈھیشیا کو برطانوی کالونی کا درجہ حاصل ہوگیا… ۱۹۶۲ء میں