کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 45
۲۰۰۲ء کو وزارتِ قانون و انصاف کی جانب سے ایک باضابطہ ریفرنڈم آرڈر جاری کیا گیا۔ اس آرڈر میں واضح کیا گیا ہے کہ ۳۰/اپریل کو ریفرنڈم میں عوام سے حسب ِذیل سوال پوچھا جائے گا
”مقامی حکومت کے نظام کی بقا، جمہوریت کے قیام، اصلاحات کے استحکام اور تسلسل، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خاتمے اور قائداعظم کے تصور کی تکمیل کے لئے کیا آپ صدر جنرل پرویز مشرف کو آئندہ پانچ سال کے لئے صدرِ پاکستان بنانا چاہتے ہیں ؟“
اس سوال کا جواب ’ہاں ‘ یا ’ناں ‘ میں دینا ہوگا۔ ہاں کی اکثریت ہوئی تو جنرل پرویز مشرف آئندہ پانچ سال کے لئے منتخب قرار پائیں گے اور ان کے نئے عہدے کی میعاد اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمینٹ کے پہلے اجلاس سے شروع ہوگی۔ اس آرڈر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریفرنڈم کو کسی عدالت یا ٹربیونل کے سامنے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا اور ریفرنڈم کے متعلق تمام تنازعات الیکشن کمیشن طے کرے گا۔ مزید یہ کہ ریفرنڈم کے سلسلے میں اگر کوئی مشکلات درپیش ہوں تو جنرل پرویز مشرف اپنی صوابدید کے مطابق جو مناسب سمجھیں ، احکامات جاری کرسکیں گے اور یہ کہ ریفرنڈم کے انعقاد کے سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر کے پاس سپریم کورٹ کے جج جیسے اختیارات ہوں گے۔ گڑ بڑ کی صورت میں یا توہین عدالت پر وہ کسی بھی شخص کو سزا دینے کے بھی مجاز ہوں گے!!
ریفرنڈم آرڈر کے اعلان کے ساتھ ہی پورے ملک کے قانونی، علمی اور دینی حلقوں میں مختلف مباحث اور سوالات اٹھائے گئے۔ قانونی حلقوں نے سوال اٹھایا کہ آئین کے تحت صدر کے انتخابات کے لئے ایک باقاعدہ طریقہ کار اور ضابطہ صراحت سے بیان کیا گیا ہے۔ موجودہ ریفرنڈم اس سارے ضابطے کی نفی کرتا ہے، اس لئے یہ اقدام سراسر غیرآئینی ہے۔ علمی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ وردی سمیت صدر کا انتخاب ملک میں ایک طویل آمریت کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ اس انداز میں اگر جنرل پرویز مشرف ایک مرتبہ صدر بنا لئے گئے تو پھر لیبیا کے کرنل قذافی، عراق کے جنرل صدام حسین اور شام کے صدر جنرل حافظ الاسد کی طرح انہیں تادمِ مرگ صدر رہنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
دینی حلقوں کی جانب سے اس عمل کے اسلامی تشخص پر مباحث سامنے آئے۔ ریفرنڈم کے حامی مولوی حضرات نے نہ صرف اسے عین اسلامی قرار دیا بلکہ خلافت ِراشدہ کی سنت ہونے کی سند بھی عطا کردی۔ جبکہ ریفرنڈم مخالف دینی حلقوں کا یہ موقف سامنے آیا کہ گھر کی چوکیداری کیلئے بھرتی کئے جانیوالا چوکیدار اگر مالک مکان ہی کی دی ہوئی بندوق اسی پر تان کر پورے گھر پر قبضہ کرلے اور مکان کا مالک ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تو کسی دینی ضابطے کے تحت ایسے چوکیدار کو قانونی اور شرعی تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔
اس کے برعکس جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں نے بہ اصرار، لاکھوں عوام کے سامنے ریفرنڈم کو آئین کے عین مطابق قرار دیا اور قوم کو یہ یقین دلانے کے لئے پورے ملک میں بڑے بڑے