کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 44
قانون وسیاست ڈاکٹر ظفر علی راجا
آئین پاکستان اور ریفرنڈم
۱۲/اکتوبر۱۹۹۹ء کو افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے عنانِ اقتدار سنبھالی تو اپنی تقاریر میں یہ تاثر دیا تھا کہ انہیں حادثاتی طور پر یہ ذمہ داری بہ امر مجبوری قبول کرنا پڑی ہے اوریہ کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف نے اس پس منظر میں اپنے آپ کو چیف ایگزیکٹو کہلوانا پسند کیا۔ وہ نہ تو ’چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘ بنے اورنہ ہی صدارتی منصب کو چھیڑا۔ بلکہ منتخب آئینی سربراہ کے طور پر پہلے سے کارفرما جناب محمد رفیق تارڑ کو بطورِ صدر قبول کرلیا۔بعد ازاں پاکستان کی عدالت ِعظمیٰ نے ایک کیس میں جس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے ماورائے آئین عہدے کو چیلنج کیا گیا تھا،انہیں تین سال کے لئے حکومت کرنے کااختیار دے دیا اور ان پرپابندی لگائی کہ اس مدت میں وہ اصلاحِ احوال کے لئے اپنی اعلان کردہ ترجیحات کو مکمل کریں اور اس مقصد کے لئے اگر کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہو تو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کسی ردّوبدل سے احتراز کرتے ہوئے کچھ ترامیم کرلی جائیں ۔ اس عدالتی فیصلے میں جنرل پرویز مشرف کو اس امر کا بھی پابند کیا گیا تھا کہ وہ ۱۲/ اکتوبر ۲۰۰۲ء سے قبل قومی انتخابات بھی مکمل کروائیں ۔
جنرل پرویز مشرف نے عدالت ِعظمیٰ کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ قوم نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو اس تاثر کے ساتھ قبول کیا کہ تین سال بعد غیر آئینی حکومت ختم ہوجائے گی اور انتخابات کے بعد ایک عوامی، جمہوری اور غیر فوجی قیادت ملک کو میسر آجائے گی۔ لیکن جوں جوں قومی انتخابات کی تاریخ قریب آتی چلی گئی، توں توں جنرل پرویز مشرف کے خیالات بھی تبدیل ہوتے چلے گئے۔ پہلے انہوں نے بھارت سے کشیدگی کو جواز بنا کر وطن عزیز کے منتخب صدر کو ان کی مرضی کے بغیر عہدۂ صدارت سے فارغ کرکے صدارت کی کرسی بھی خود سنبھال لی اور اب باقاعدہ سیاسی میدان میں آکر آئندہ پانچ سال کے لئے پاکستان کے صدر منتخب ہونے کے متمنی بھی ہیں ۔ اور وہ بھی اس طرح کہ انہیں بیک وقت منتخب شدہ عوامی صدر بھی قرار دیا جائے اور بطورِ سربراہِ افواجِ پاکستان ایک حاضر سروس جرنیل بھی تسلیم کرلیا جائے۔
جنرل صاحب نے دوہرے کردار والا صدر منتخب ہونے کے لئے ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ریفرنڈم ۳۰/ اپریل ۲۰۰۲ء کو برپا ہونا قرار پایا ہے۔ریفرنڈم کا عمل رواں دواں رکھنے کے لئے ۹/اپریل