کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 4
(۳) جنرل پرویز مشرف اپنی پریس کانفرنسوں اور عوامی جلسوں میں بارہا یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ ریفرنڈم کا اعلان انہوں نے آئینی ماہرین سے مشورے کے بعد ہی کیا ہے۔ مگر یہ آئینی ماہرین کون ہیں ؟ اس کے متعلق سابق وزیر اطلاعات اور معروف صحافی مشاہد حسین کہتے ہیں :
” یہ محض حادثہ نہیں کہ جنرل مشرف کی پشت پر وہی قانونی دماغ بر سر عمل ہے جس نے جنرل ضیاء اور اس سے پہلے جنرل ایوب خان کی ’خدمت گزاری‘ کی تھی اور یہ شریف الدین پیرزادہ ہیں جن کی عمر نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔“ (نوائے وقت: ۲/اپریل ۲۰۰۲ء)
اس ریفرنڈم کے آئینی جواز کے متعلق کسی عام آدمی یا حکومتی ترجمان کی بجائے حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے بطورِ چیف جسٹس ریٹائر ہونے والی دو اہم شخصیات جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اور سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی آرا زیادہ وقیع،قابل قدر اور وزنی ہیں ۔ان دونوں حضرات نے بیان دیا ہے کہ آئین میں صدارتی عہدہ پر فائز رہنے کے لیے ریفرنڈم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں ایک واضح طریقہ موجود ہے جس کے تحت صدر کے الیکشن کا حلقہ صرف صوبائی اسمبلیاں اور سینٹ ہیں ۔( نوائے وقت: ۵/اپریل)
جسٹس سجا دعلی شاہ تو میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کے خلاف فیصلے دے چکے ہیں ، لہٰذا ان کی رائے کے متعلق کسی قسم کے ’سیاسی تبصرہ‘ کا خیال لانا بھی مشکل ہے۔ مزید برآں پاکستان بار کونسل اور وکلا کی دیگر تمام نمائندہ تنظیموں نے اس ریفرنڈم کوآئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس ریفرنڈم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ ایک اور رِٹ درخواست لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ۱۹۹۸ء میں دائر کی گئی درخواست گزار کی ایک رِٹ پٹیشن پر قرار دیا تھا کہ ریفرنڈم کے ذریعے صدر کے انتخاب کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ درخواست گزار نے یہ بھی موقف اختیار کیا ہے کہ جنرل مشرف کا فیصلہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر چہ تازہ رِٹ درخواستوں پر ابھی (۲۲/اپریل) تک اعلیٰ عدالتوں نے فیصلہ نہیں دیا مگر لاہور ہائی کورٹ کے محولہ بالا فیصلہ کی روشنی میں ریفرنڈم کی آئینی حیثیت کا تعین کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہونا چاہیے !!
(۴) ریفرنڈم کی آئینی حیثیت کے متعلق خو د جنرل پرویز مشرف کا اعتماد بھی متزلزل ہو گیا ہے ۱۳/اپریل کو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا :” اگر ریفرنڈم غیر آئینی ہے تو فیصلہ عدالت کرے گی۔ “ اس غیر یقینی صورتحال کا تقاضا تو یہی تھا کہ عدالت کا فیصلہ آنے تک ریفرنڈم مہم روک دی جاتی کیونکہ اگر عدالت اسے غیر آئینی قرار دیتی ہے تو ریفرنڈم مہم پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کا نقصان قوم کوبرداشت کرنا پڑے گااور قوم انتشار کا شکار بھی رہے گی۔
جس بات کے متعلق خود صدر صاحب کو بھی انشراحِ صدر نہیں ہے ، اس کے متعلق جوش وخروش سے