کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 3
اس میں بھی بنیادی سوال یہی تھا کہ کیا عوام صدر ضیاء الحق کی ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی کو پسند کرتے ہیں یا نہیں ؟ اس میں فتح کے بعد ان کا اپنے آپ کو مزید پانچ سال کے لیے صدر منتخب سمجھ لینا محض اس ریفرنڈم کا خود ساختہ نتیجہ تھا۔ یورپ اور امریکہ کی پوری تاریخ میں ایک بھی مثال نہیں ملتی جس میں کسی صدر نے اپنے عہدہ کی میعاد بڑھانے کے لیے ریفرنڈم کا سہارا لیا ہو۔ (۲) ۱۹۷۳ء کے آئین پاکستان میں صدارتی انتخاب کے لیے ایک واضح طریقہ کار موجود ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۴۱ (۳) کی رو سے صدر کاانتخاب ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور سینٹ کے مشترکہ ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے۔ ریفرنڈم کاطریقہ آرٹیکل ۴۸ (۶) میں درج ذیل الفاظ میں ملتا ہے : ” اگر کسی بھی وقت صدر، اپنی صوابدید کے تحت یا وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر یہ مناسب سمجھتا ہے کہ قومی اہمیت کے کسی مسئلہ پر ریفرنڈم کرایا جائے تو صدر اس مسئلے کو ایک سوال کی صورت میں ، جس کاجواب ’ہاں ‘ یا ’نہیں ‘میں ہی دیا جاسکتا ہو، ریفرنڈم کے حوالہ کر سکتا ہے۔“ آئین کے آرٹیکل ۴۸ کی ذیلی شق نمبر ۶ واحد شق ہے جس میں ریفرنڈم کا ذکر ملتا ہے۔ یہاں یہ نشان دہی بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ اس شق کو بھی سابق وزیر اعظیم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپریل ۱۹۷۷ء میں اس وقت آئین میں ساتویں ترمیم کے ذریعے متعارف کرایا تھا جب وہ ۱۹۷۷ء کا الیکشن جیت چکے تھے مگر حزبِ اختلاف اس انتخاب کے نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی۔قومی اتحاد نے زبردست احتجاجی تحریک شروع کر رکھی تھی، اس وقت کے وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے ریفرنڈم کرادیا جائے تا کہ حزبِ اختلاف کی طرف سے دوبارہ انتخاب کے مطالبہ کی تکمیل سے آئینی طور پر بچا جاسکے۔ اب ذرا غور کیجئے، آرٹیکل ۴۸(۶) میں صدارتی انتخاب یا صدر کی تعیناتی یا صدارتی عہدہ پر مزید مدت کے لیے برقرار رہنے کا اشارتاً بھی ذکر نہیں ملتا۔ایک نکتہ اور بھی غور طلب ہے ، وہ یہ ہے کہ ریفرنڈم کرانے کے لیے آئینی طور پر ایک جائز صدر کا پہلے سے موجود ہوناضروری ہے کیونکہ آئین کی رو سے ایک پہلے سے موجود صدر ہی کسی قومی مسئلے پر ریفرنڈم کراسکتا ہے ، یہ نہیں کہ ایک پی سی او یا آئین سے ماورا کسی اور طریقہ سے منصب ِصدارت پر فائز ایک شخص پہلے تو ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آئینی حیثیت کو جوا ز عطا کر دے اور بعد میں بزعم خویش ایک آئینی صدر کی حیثیت سے اسی آرٹیکل کی رو سے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی قومی مسئلہ پر ریفرنڈم کرانے کا اہتمام بھی کرے۔ ان دلائل کی بنیاد پر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ۳۰ /اپریل کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان آئین کی مذکورہ شق سے واضح انحراف بلکہ آئین سے ماورا اِقدام ہے۔ اگر وہ مزید پانچ سال کے لیے عہدہٴ صدارت پر فائز رہناچاہتے ہیں تو انہیں آئین کے آرٹیکل ۴۱ میں مذکورہ طریقہ کار کو اختیار کرنا چاہیے۔