کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 29
میں حافظ ِقرآن نہ تھے۔ آپ نے اپنی توجہ سے لاتعداد لوگوں کو حافظ ِقرآن کردیا اور علوم بھی پڑھائے۔ حافظ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادہ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب ِتحفة الاحوذی (م۱۳۵۳ھ) اس مدرسہ کے نگران و مہتمم مقرر ہوئے، اور انہوں نے باقاعدہ علومِ اسلامیہ کی تدریس کا آغاز کیا۔ مولانا مبارکپوری سے اس مدرسہ میں جن علما نے استفادہ کیا، ان میں مولانا عبدالسلام مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (م۱۳۴۲ھ) اور ان کے صاحبزادگان مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۳۶۴ھ)، مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری (م۱۴۰۲ھ)، مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۳۸۲ھ) اور شیخ تقی الدین الہلالی مراکشی رحمۃ اللہ علیہ سابق استادِ ادب، ندوة العلما، لکھنوٴ اور جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ(م۱۹۸۷ء) قابل ذکر ہیں ۔
مؤ ناتھ بھجن کے مدارس
مؤ ناتھ بھجن ضلع اعظم گڑھ کا مشہور قصبہ ہے اور شہر کی کثیر آبادی مسلک ِاہل حدیث سے وابستہ ہے۔ اس شہر میں جماعت ِاہل حدیث کی سالانہ کانفرنس تقریباً ہر سال ہوتی تھی۔ اور پورے ہندوستان سے علمائے اہل حدیث کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ (م۱۹۴۸ء)، مولانا حافظ محمد ابراہیم میرسیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۹۷۵ء)، مولانا عبدالمجید سوہدروی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۹۵۹ء) اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۹۶۸ء) وغیرہم مؤ ناتھ بھجن تشریف لے جاتے تھے۔ اس شہر میں اہل حدیث مکتب ِفکر کے جو مدارس تھے، ان کی تفصیل یہ ہے:
مدرسہ اسلامیہ، عالیہ
اس مدرسہ کی بنیاد ملا حسام الدین مؤی (م ۱۳۱۰ھ) نے ۱۲۸۵ھ/۱۸۶۸ء میں رکھی۔ اس مدرسہ کے صدر مدرّس خود ملا حسام الدین تھے۔ مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا ابوالمکارم محمد علی مؤی نے اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ملا حسام الدین مؤی کے انتقال کے بعد مولانا ابوالفیاض عبدالقادر مؤی (م۱۲۳۱ھ/۱۹۱۳ء) اور مولانا عبدالسلام مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب ِسیرة البخاری (م۱۳۴۲ھ/۱۹۲۴ء) اس مدرسہ میں تدریس فرماتے رہے۔
مدرسہ فیض عام
اس مدرسہ کے بانی و صدر مدرّس مولانا عبداللہ شائق (م۱۳۹۴ھ) تھے اور ان کے ساتھ دوسرے مدرّس مولانا محمد سلیمان مؤی (م۱۳۹۸ھ) تھے۔ یہ مدرسہ اب بھی کتاب و سنت کی اشاعت و تعلیم میں مصروفِ عمل ہے۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اشاعت ِکتب کی طرف بھی اس کی توجہ ہے۔ اشاعتی