کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 27
بھائیوں کے دیرینہ مراسم تھے۔ چنانچہ مولانا رحیم آبادی نے دہلی جاکر شیخ برادران سے دیوبند کا واقعہ بیان کیا اور انہیں تحریک دی کہ دہلی میں آپ ایک مثالی مدرسہ قائم کریں ۔
چنانچہ شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی تحریک پر ۱۳۲۹ھ/۱۹۱۱ء میں ’دارالحدیث رحمانیہ‘ کے نام سے ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی اور باڑہ بند وارڈ میں ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کرائی۔ ہوسٹل (دارالاقامہ) علیحدہ تعمیر کرایا اور اس مدرسہ کا سارا انتظام اور طلباکی خوراک وغیرہ کا انتظام بھی اپنے ذمہ لیا۔ یہ مدرسہ ۱۹۴۷ء تک کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل رہا۔
اس مدرسہ کے اولین اساتذہ یہ مقرر ہوئے: مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی، رحمۃ اللہ علیہ مولانا احمد اللہ پرتاب گڑھی، رحمۃ اللہ علیہ مولانا غلام یحییٰ کانپوری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عبدالرحمن نگر نہسوی رحمۃ اللہ علیہ ۔ اس کے بعد اس مدرسہ میں مولانا حافظ محمدمحدث گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا عبدالسلام مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا نذیر احمد رحمانی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا شیخ محمد عبدہ الفلاح رحمۃ اللہ علیہ جیسے نابغہ روز گار علما نے تدریسی خدمات انجام دیں ۔
مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۹۶۴ء/۱۳۶۴ھ) اس کے اوّلین ممتحن اور مدیر تعلیم مقرر ہوئے اور اس مدرسہ کے آخری وجود ، قیامِ پاکستان تک اس منصب پر فائز رہے۔
اس مدرسہ کے فارغ التحصیل طلبا اپنے نام کے ساتھ ’رحمانی‘ لکھتے ہیں ۔ اس مدرسہ کی ایک بہت لائبریری بھی تھی اور دارالحدیث رحمانیہ کا ایک ماہوار آرگن ’محدث‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ جس کا سالانہ چندہ صرف چار آنے تھا۔ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں یہ مدرسہ ختم ہوگیا۔ شیخ عطاء الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے شیخ عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ دارالحدیث کی لائبریری بنارس میں ’جامعہ سلفیہ‘ کے حوالہ کرکے کراچی آگئے۔ (
[1] چونکہ ’رحمانیہ ‘ کے معاون مدیر تعلیم /ممتحن حافظ عبد اللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے بردارِ خورد شیخ التفسیر حافظ محمد حسین (والد ِگرامی مدیر اعلیٰ محدث) تھے جبکہ امتحان کی نگرانی بطورِ خاص خطیب ِملت حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی رحمۃ اللہ علیہ اور مناظر اسلام حافظ عبد القادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم بھی فرماتے تھے ، اس لئے اس مدرسہ کا خاص علمی تعلق اس امرتسری/روپڑی خاندان سے تھا۔ اسی مناسبت سے حافظ عبد الرحمن مدنی نے جب گارڈن ٹاؤن /ماڈل ٹاؤن لاہور میں دینی تدریس کے کام کو پھیلایا تو پہلے مدرسہ کا نام ’رحمانیہ‘ ہی رکھا، اور اس سے ملحق علمی تحقیقی ادارہ کانام ’مجلس التحقیق الاسلامی‘ رکھا جس کی طرف سے ’محدث‘ کے نام سے ہی ماہوار علمی رسالہ ۱۹۷۰ء میں جاری کیا۔ اگرچہ اب یہ درس گاہ ایک اسلامی یونیورسٹی کے طور پر کلیہ الشریعہ، کلیہ القرآن الکریم اور کلیہ العلوم الاجتماعیہ کے علاوہ المعہد العالی للشریعہ والقضاء اور المعہدالعالی للدعوۃ والاعلام جیسے اعلیٰ علمی شعبوں پر مشتمل ہے جس کے ساتھ ثانوی درجہ کو ابھی تک ’رحمانیہ‘ کے نام سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ عام طورپر لوگ پاکستان میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے بجائے ’رحمانیہ‘ ہی کے نام سے متعارف ہیں ۔ ان کلیات ومعاہد کا معادلہ ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں سے ہے اور فارغ التحصیل طلبہ براہِ راست اعلیٰ تحقیق (ڈاکٹریٹ وغیرہ) کے لئے قبول کئے جاتے ہیں ۔ (محدث)