کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 26
آپ نے مولانا رحمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۳۲۷ھ/۱۹۰۹ء) سے استفادہ کیا تھا۔ ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء میں محدث غازی پوری حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں شیخ عباس یمنی رحمۃ اللہ علیہ تلمیذ امام محمدبن علی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث کی سند واجازہ حاصل کی اور حجاز سے واپسی کے بعد محدث غازیپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مدرسہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا چنانچہ یہ مدرسہ مسلک ِاہل حدیث پر کاربند ہوگیا۔
حافظ عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مدرسہ میں سات سال تک (یعنی ۱۳۰۴ھ/۱۸۸۶ء تک) حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دیا۔ اس کے بعد آپ مولانا حافظ ابراہیم آروی رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر مدرسہٴ احمدیہ، آرہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے ۲۰ سال تک یعنی ۱۳۲۷ھ تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعد آپ دہلی تشریف لے آئے اور دہلی میں آپ نے مدرسہ حاجی علی جان اور مدرسہ ریاض العلوم میں درس و افادہ کا بازار گرم رکھا اور سینکڑوں طلبا کو علمی فیوض سے بہرہ ور کیا۔آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں :
مولانا محمد سعید بنارسی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب ِتحفة الاحوذی، مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا عبدالسلام مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب ِسیرة البخاری، مولانا محمد اکبر شیث جونپوری رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ (گوجرانوالہ) وغیرہم
دارالحدیث رحمانیہ، دہلی
اس کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ امیرالمجاہدین صوفی محمد عبداللہ وزیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۹۷۵ء/۱۳۹۵ھ) دیوبند تشریف لے گئے۔ جب آپ مدرسہ دیوبند میں پہنچے تو مولانا محمد انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (م۱۹۳۲ء/۱۲۵۱ھ) حدیث کا درس دے رہے تھے۔ حضرت صوفی صاحب مرحوم بھی شاہ صاحب کے درس میں بیٹھ گئے۔ جب شاہ صاحب درس سے فارغ ہوئے تو صوفی صاحب نے شاہ صاحب سے فرمایا:
”آپ حدیث کا درس دے رہے تھے یا حدیث پر تنقید فرما رہے تھے، آپ کا سارا درس حدیث پر تنقید اور تردید پر مشتمل تھا۔“
طلباء حضرت صوفی صاحب کی اس بات کو برداشت نہ کرسکے اور ان کے ساتھ گستاخی پراتر آئے۔ حضرت شاہ صاحب مرحوم صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام اور کام سے واقف تھے۔ آپ نے طلبا کو سختی سے منع کیا۔ اس کے بعد صوفی محمد عبداللہ، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو دیوبند کے واقعہ سے مطلع کیا اور ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اہل حدیث جماعت کو بھی ایک مدرسہ قائم کرنا چاہئے۔ مولانا رحیم آبادی نے صوفی صاحب سے اس بات پر اتفاق کیا۔ شیخ عبدالرحمن اورشیخ عطاء الرحمن دونوں بھائی دہلی کے بڑے تجار میں شمار ہوتے تھے اور مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے ان دونوں