کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 20
رہے تھے تو مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقا کو سبقت کیسے حاصل ہوگئی؟
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۰۷۰ھ/۱۶۶۰ء میں دہلی میں مدرسہ رحیمیہ کی بنیاد رکھی۔ جس میں آپ اپنی وفات ۱۱۳۱ھ/۱۷۱۹ء تک تدریس فرماتے رہے۔ حضرت شاہ عبدالرحیم کے بعد ان کے فرزند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے انتقال ۱۱۷۶ھ/۱۷۶۲ء تک مدرسہ رحیمیہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد ان کے صاحبزادگان حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاہ عبدالغنی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’مدرسہ رحیمیہ‘ دہلی میں تدریس فرمائی۔ ان چاروں بھائیوں میں سب سے آخر میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۲۳۹ھ/۱۸۲۴ء میں وفات پائی۔
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد ان کے نواسہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان جاری ہوا جو ۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ء تک دہلی میں تدریس فرماتے رہے۔ ۱۲۵۸ھ/ ۱۸۴۲ میں حضرت شاہ محمداسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مکہ معظمہ ہجرت کی اور ۱۲۶۲ھ/۱۸۴۶ء میں مکہ معظمہ میں انتقال کیا۔
حضرت شاہ محمداسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مکہ معظمہ ہجرت کرنے کے بعد ان کے جانشین ( شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث رحمۃ اللہ علیہ دہلوی (م۱۳۲۰ھ/۱۹۰۲ء) ہوئے جو ۶۲ سال تک دہلی میں کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے اور اس عرصہ میں ہزاروں طلباء ان سے مستفید ہوئے۔
مدرسہ عربیہ، دیوبندکا قیام
مدرسہ عربیہ، دیوبند کا قیام ۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء کو عمل میں آیا، سید محبوب رضی اپنی کتاب ’تاریخ دیوبند‘
[1] اس کا اعتراف مولانا زاہد الراشدی کو بھی ہے، وہ اپنی تصنیف ’دینی مدارس کی مثالی خدمات‘ مطبوعہ مکہ کتاب گھر، الکریم مارکیٹ، اردو بازار ، لاہور (اپریل ۲۰۰۱ء) کے پیش لفظ مؤرخہ ۲۰/مارچ ۲۰۰۱ء میں لکھتے ہیں :
’’جہادِ بالاکوٹ کے بعد جب حضرت شاہ محمد اسحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ہجرت کرکے حجازِ مقدس چلے گئے تو ان کی جگہ دہلی کی مسند ِحدیث پر حضرت میاں نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ متمکن ہوئے جن کا رجحان حنفیت سے گریزاں اس مکتب ِفکر کی طرف تھا جو بعد میں اہل حدیث سے موسوم ہوا۔‘‘ (ص ۷،۸)
اسی پیش لفظ میں وہ ’درسِ نظامی‘ کے بانی ملا نظام الدین سہالوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۱۶۱ھ) کے سلسلہ درس کا اضافہ کرتے ہوئے ’مدرسہ عربیہ‘ بعدازاں ’دار العلوم دیوبند‘ کی طرف سے درسِ نظامی میں دورۂ حدیث کے اضافے کا ذکر بھی کرتے ہیں جس کا بنیادی سبب حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا وہ طرزِ تدریس حدیث ہی تھا۔
اگرچہ حضرت میاں نذیر حسین دہلوی کا لقب ’شیخ الکل فی الکل‘ اسی لئے معروف ہوا کہ وہ تمام علوم ہی پڑھاتے تھے یعنی یہ جانشینی صرف حدیث کی طرزِ تدریس کے اعتبار سے ہی نمایاں نہ تھی بلکہ یہ ایک کامل مدرسہ تھا۔ واضح رہے کہ ماضی قریب تک مدارس کا اصل تعارف کسی ایک بڑی علمی شخصیت کے حوالے سے ہی چلا آتا ہے جو ’شیخ الحدیث‘ کہلاتا ہے۔ تشنگانِ علوم اسی کی شہرت کی بنا پر مدارسِ عربیہ میں جوق در جوق داخل ہوتے تھے۔ ( محدث)