کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 19
تحریک ِاہل حدیث عبدالرشید عراقی ولی اللّٰہی سلسلہ کے مدارس و جامعات علمائے اہل حدیث کی تدریسی خدمات عموماً دونظام ہائے تعلیم کو مسلمانانِ برصغیر کے تعلیمی رجحانات کی بنیاد بنایا جاتا ہے، ایک مدرسہ علی گڑھ اور دوسرا دار العلوم دیوبند۔ انہی کے حوالے سے آگے تعلیمی اور فکری ارتقا کی بحث کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ دینی مدارس اور سکول وکالج کا یہی نقطہ آغاز تھا۔ جبکہ تاریخی طور پر یہ بات درست نہیں ، مدرسہ علی گڑھ تو مسلمانوں میں انگریز سرکار کی وفاداری اور بدیسی تہذیب سے مرعوبیت کی طرف ایک نمایاں قدم کہا جاسکتا ہے،جس کا تصور اس سے قبل مسلمانوں میں نہیں ملتا لیکن مدارسِ دینیہ کا نقطہ آغاز دار العلوم دیوبند کو قرار دینا علمی خیانت کے مترادف ہے ۔کیونکہ اس سے قبل بھی مسلمانوں کے روایتی دینی مدارس کا سلسلہ قدیم سے چلا آرہا تھا، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خانوادے نے جو تدریسی اصلاحی خدمات انجام دیں ، وہ بھی دار العلوم دیوبند سے دو صدیاں تو پرانی ہیں ہی۔ یعنی اس تاریخی تذکرے میں اس فکری اصلاح کو عمداً نظر انداز کیا جاتا ہے جو جمود وتقلید کے خلاف شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے چلائی اور اجتہاد کے احیا کے ساتھ سنت کی طرف رجوع وغیرہ کے رجحانات اس میں پیدا کئے۔ اسی فکری تحریک نے مدرسہٴ دیوبند اور دیگر روایتی مدارس میں حدیث ِنبوی کی طرف توجہ اور اہتمام کو فروغ دیا۔ خلاصہ یہ کہ فکری طور پر اگر علی گڑھ کی تحریک الحاد وتجدد کی داعی تھی تو دار العلوم دیوبند یک سالہ دورۂ حدیث کے باوجود مخصوص فقہ حنفی کی تنگ نائیوں سے باہر نہ آسکا۔ان دونوں انتہائی نکتہ ہائے نظر (تقلید والحاد)کے مابین راہِ اعتدال (اجتہاد) کی علمبردار تحریک ِاہل حدیث بھی تھی، جس کے تدریسی ادارہ جات کے تعارف کے لیے درج ذیل مضمون ہدیہٴ قارئین ہے۔ ماہنامہ ’محدث‘ لاہور کی جنوری ۲۰۰۲ء کی اشاعت پیش نظر ہے جس میں مولانا زاہد الراشدی کا مضمون بعنوان ’دینی مدارس او ر بنیاد پرستی ‘شائع ہواہے، صفحہ ۴۵ پر مولانا زاہد الراشدی لکھتے ہیں : ”نئے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی ضروریات کے دو حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد اہل دانش نے مستقبل کی طرف توجہ دی، سرسید احمدخان نے ایک محاذسنبھال لیا اور دفتری و عدالتی نظام میں مسلمانوں کو شریک رکھنے کے لئے انگریزی تعلیم کی ترویج کو اپنا مشن بنایا جبکہ دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی تعلیم کا محاذ فطری طور پر علماء کرام کے حصہ میں آیا اور اس سلسلہ میں سبقت اور پیش قدمی کا اعزاز مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقا کا حاصل ہوا۔“ دارالعلوم دیوبند کا قیام ۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء میں عمل میں آیا اور اس سے ۲۵ سال پہلے مولانا سید محمدنذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سرخیل اہل حدیث، مسجد ِاورنگ آبادی، دہلی میں ۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ء میں قائم کرکے تدریس فرما