کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 15
کیونکہ اِن سالوں میں آپ کی دعوت پھیل چکی تھی اور آپ کا مشن ظاہر ہوچکا تھا، اس لئے وہ آپ پرایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے شہر کی طرف آپ کی اور آپ کے صحابہ کی ہجرت کا خیرمقدم کیا اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کا عہد کرلیا۔چنانچہ آپ کی اور آپ کے پیروکاروں کی مدینہ میں ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار مل کر رہنے لگے۔ ان میں سوائے چند اہل یثرب کے اور کوئی بھی ایسا نہ تھا جو دنیاوی ترغیب و ترہیب کی بنا پر ایمان لایا ہو اور چند اہل یثرب جو بظاہر مسلمان تھے، ان میں سے بھی بعض کا اسلام ٹھیک ہوگیاتھا۔
بعد ازاں آپ کو جہاد کی اجازت مل گئی اورجہاد کرنے کا حکم دیا گیا ۔ چنانچہ آپ مکمل ترین صدق وصفا اور عدل و انصاف اور وفاداری کے ساتھ اللہ کے دین کو تھامے رہے۔ آپ کی پوری زندگی میں کسی سے ظلم و بدعہدی کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا اور نہ کبھی جھوٹ آپ کی زبان سے سرزَد ہوا؛بلکہ آپ سب سے راست گو اور سب سے بڑھ کر انصاف پسند اور سب سے بڑھ کر عہد کی پاسداری کرنے والے تھے۔ صلح کی حالت ہو یا جنگ کا سماں ، امن کی حالت میں بھی اور خوف کی حالت میں ، مالداری کی حالت میں بھی اور تنگدستی کی حالت میں بھی، قلت کی حالت میں بھی اور کثرت کی حالت میں بھی، فتح کی سرشاری ہو یا شکست کی بے قراری، کوئی بھی حالت آپ کو ان اوصاف ِکمال سے برگشتہ نہ کرسکی۔یہاں تک کہ آپ کی دعوت اس سرزمین پر چھاگئی جو بتوں کی پرستش اور مدعیانِ اخبارِ غیب کی داستانوں اور خالق کائنات سے کفر اور مخلوق کی فرمانبرداری، سفاکی اور قطع رحمی سے بھرچکی تھی اور وہ لوگ جو آخرت اور د وبارہ جی اُٹھنے کو جانتے نہ تھے، وہ اہل زمین میں سے ایسے عالم ، فاضل اور دیندار اور عابد و زاہد بن گئے کہ جب شام کے نصرانیوں نے انہیں دیکھا تو پکار اٹھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری ان سے بڑھ کر نہ تھے۔ ان کے علم و عمل کے آثار بھی موجود ہیں اور دوسروں کے بھی، اور اہل عقل دونوں کے درمیان فرق کو خوب جانتے ہیں ۔
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کشور کشائی، پیروکاروں کی اطاعت اور مال و جان سے بھی بڑھ کر محبت کے باوجود اس حال میں فوت ہوئے کہ گھر میں ایک درہم بھی موجود نہ تھا، نہ کوئی بکری نہ اونٹ، سوائے اپنے خچر اور ہتھیاروں کے اور آپ کی ڈھال، تیس وسق جَوجو آپ نے گھر والوں کے لئے خریدے تھے ، کے بدلے ایک یہودی کے ہاں گروی پڑی تھی۔ آپ کے پاس مالِ فئ کی جاگیر تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کا خرچہ پورا کرکے باقی مسلمانوں کی ضروریات پر خرچ کردیتے تھے، اس کے متعلق بھی آپ نے حکم دیا کہ وہ صدقہ ہے، اس سے میرے وارثوں کوکچھ نہ ملے گا، علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اتنے عجیب و غریب معجزات اور کرامات ظاہرہوئیں کہ یہ مضمون ان کی تفصیل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔