کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 14
سے کفر کیا اور آپ کے متعلق کوئی ایسی بات سننے یا دیکھنے میں نہیں آئی جس پر انگشت نمائی کی جاسکے ؛ آپ کے اقوال میں ، نہ افعال میں اور نہ آپ کے اخلاق اور کردار میں ۔ زندگی بھر جھوٹ آپ کی زبان سے آشنا نہ ہوا ؛ نہ ہی فسق و فجور اور ظلم وستم کا الزام آپ پر لگ سکا۔ آپ کی صورت اور سیرت تمام صورتوں سے مکمل اور جامع تھی او ران خوبیوں پر مشتمل تھی جو آپ کے کمال پر دلالت کرتی ہیں ۔ آپ اُمی تھے او راُمیوں کی اس قوم میں تھے جو اہل کتاب کی طرح توراة او رانجیل کو نہیں جانتی تھی، نہ آپ اور نہ آپ کی قوم اور نہ آپ نے لوگوں کے علوم پڑھے اور نہ ان علوم کے ماہرین کے پاس بیٹھے اور جب آپ کی عمر مبارک چالیس سال ہوگئی تو آپ نے نبوت کا اعلان کیا۔ چنانچہ آپ نے تمام کاموں سے نرالا اور عظیم ترین کام کرڈالا، اور ایسا کلام پیش کیا جس کی مثال اگلے پیش کرسکے تھے نہ پچھلے۔ اور ایسے معاملے کی خبر دی جسے آپ کے شہر اور قوم والے جانتے نہ تھے اور نہ ہی زمانوں میں سے کسی زمانے اور ملکوں میں سے کسی ملک میں آپ کے علاوہ کسی اور نے کوئی ایسی چیز پیش کی اور نہ ہی آپ کی طرح کوئی غلبہ حاصل کرسکا اور نہ ہی آپ جیسے عجائبات اور دلائل پیش کرسکا، اور نہ ہی کوئی شخص آپ کی طرح اپنی شریعت کی طرف دعوت دے سکا اور نہ کسی کا دین، دلائل و براہین اور قوتِ بازو کے ساتھ آپ کے دین کی طرح آشکارا ہوسکا۔ اور پھر آپ کی پیروی بھی انبیاء کرام کے (کمزور پیروکاروں جیسے) لوگوں نے کی اور رؤسا نے آپ کو جھٹلا دیا اور آپ سے عداوت کی اورہر طریقے سے آپ کو اور آپ کے پیروکاروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی جس طرح کہ پہلے انبیا اور ان کے پیرو کاروں کے ساتھ بھی ہوتا رہا ۔ اور جن لوگوں نے آپ کی پیروی کی، انہوں نے کسی لالچ اور ڈر کی وجہ سے نہ کی تھی کیونکہ نہ تو آپ کے پاس مال تھا جو آپ انہیں دیتے، نہ ریاستیں تھیں جو انہیں عطا کرتے، اور نہ ہی آپ کے پاس تلوار تھی بلکہ تلوار اور مال تو آپ کے دشمنوں کے پاس تھا اور انہوں نے آپ کے پیروکاروں کو ہر طرح کی تکلیف پہنچائی۔ لیکن انہوں نے اللہ کی خوشنودی کی خاطر صبر کیا او راپنے دین سے روگردانی نہ کی کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان اور معروف کی حلاوت رچ بس چکی تھی۔ اور عرب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے لے کر مسلسل مکہ کا حج کرتے چلے آرہے تھے، چنانچہ جب حج کے موسم میں عرب کے قبائل جمع ہوتے تو آپ ان کی طرف نکلتے اور ان میں اپنی رسالت کا اعلان کرتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے اور جھٹلانے والے کی تکذیب اور بدسلوک کی بدسلوکی اور روگردانی کرنے والی کی روگردانی پر صبر کرتے۔ حتیٰ کہ یثرب والے آپ سے آن ملے ۔ وہ یہودیوں کے پڑوسی تھے او ران کی زبانی آپ کے متعلق سنتے رہتے تھے لہٰذا انہوں نے آپ کو پہچان لیا، جب آپ نے ان کو دعوت دی تو وہ پہچان گئے کہ یہ وہی نبی منتظر ہے جس کی خبریہود دیتے رہتے ہیں ۔ اور چونکہ وہ آپ کی خبریں سن چکے تھے، اس لئے انہوں نے آپ کے مرتبہ و مقام کوپہچان لیا