کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 12
ہے کہ حکومت امریکی دباؤ کے تحت آئین سے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی ترمیم نکال دے گی۔ پاکستان میں امریکی سفیر وینڈی چیمبرلین نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ امریکہ سے آتے ہوئے اپنے ساتھ ۲۹۵۔سی کو ختم کرانے کا ایجنڈا لائی تھی۔ خالد احمد کا یہ کہنا کہ پاکستانی آرمی جنرل مشرف کی طرح کی جرنیل پیدا نہیں کرتی، بہت حد تک معنی خیز ہے!! (۱۲) مارشل لا اپنے مزاج کے اعتبار سے اینٹی کلچر (Anti-Culture) ہوتاہے۔ اس کا تسلسل قومی اخلاقیات اور جمہوری اقدار کو بالآخر تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ مارشل لا کے مزاج میں دھونس، تکبر، تحکمانہ انداز اور بے جا قوت کے استعمال کا داعیہ پایا جاتاہے۔آمریت کا ایک نقص یہ بھی ہے کہ ’انقلاب‘ لانے کی دھن میں قانون، دیرینہ روایات اور عوامی منشا کو نظر انداز کردیا جاتاہے۔ فوجی حکومت کے زیر اثر بنیادی حقوق اور سماجی آزادیوں سے کماحقہ استفادہ ممکن نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں پریس کو اگرچہ کسی حد تک آزادی میسر ہے مگر پھر بھی لکھنے والوں پر ایک انجانے خوف کا احساس طاری رہتا ہے۔ کالم نگاروں کی حیلہ جوئیاں ، مضمون نگاروں کے اشارے کنارے، استعارات و ایمائیت، براہِ راست تنقید سے گریز، تنقید کے ساتھ تعریف کا امتزاج، اور ہلکے پھلکے طنز و ظرافت کا استعمال محض اختیاری معاملہ نہیں ہے، اس کے پیچھے ایک بے نام سا ’ابلاغی جبر‘کارفرما نظر آتا ہے، جو چھپائے نہیں چھپتا۔ مسلسل دب کر لکھنے سے بالآخر اخلاقی کیریکٹر آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہوجاتاہے۔ ابھی چند روز پہلے جناب عطاء الحق قاسمی نے اپنے کالم میں لکھا کہ ”اخبارات جو کچھ لکھنا چاہتے ہیں اس کا صرف دس فیصد لکھ پارہے ہیں ، انہیں اپنی حدود کا بھرپور احساس ہے۔“ اکیسویں صدی میں جہاں روشن خیالی اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے، اس دور میں جب کہ جمہوریت کو کسی ملک کے ’مہذب‘ یا ’غیر مہذب‘ ہونے کا معیار گردانا جاتاہے، پاکستان جیسے ملک میں ایک فوجی حکومت کے تسلسل کے لئے ریفرنڈم کا انعقاد، ایک قومی بدنصیبی سے کم نہیں ہے!! آج سے ۲۲ سال پہلے اگر صدر ضیاء الحق مرحوم کی طرف سے منعقد کردہ ریفرنڈم کا جواز نہیں تھا، تو آج حالات ریفرنڈم کے انعقاد کے لئے اس سے کہیں زیادہ غیر موزوں ہیں ۔ آخر وہ کون سی لبرل ازم ہے جس میں غیر جمہوری حکومت کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہو؟ مارشل لا نہ اسلام کی رو سے کوئی پسندیدہ سیاسی طرزِ حکومت ہے اور نہ ہی جدید جمہوری نظام میں اس کو نگاہِ تحسین سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ امریکہ جیسے جمہوریت کے علمبردار ملکوں کے دوہرے معیارات اور منافقت ہے کہ وہ ایسے ممالک میں غیر جمہوری حکومتوں کی سرپرستی کرتے ہیں جو ان کے ایجنڈے کی حمایت کرتے ہوں ۔ نوائے وقت کے ایک کالم نگارنے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم کرانے کا مشورہ امریکی صدر جارج بش نے دیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس ریفرنڈم کی حیثیت مزید مشکوک ہوجائے گی۔ آخر امریکی صدر جنرل مشرف جیسے فوجی حکمران کو پاکستان کا صدر کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟