کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 9
وہ اپنی قوم کو گمراہ کر کے اس کا استحصال کرنے کو بہت بڑی کافری تصور کرتے تھے۔ وہ اپنا یہ بنیادی فریضہ تصور کرتے تھے کہ عوام کو صحیح سیاسی شعور، آنکھیں، دماغ اور دل کی وافر دُنیا عطا کی جائے۔ انہوں نے سیاسی رشوت کی کھیر کبھی نہیں بانٹی تھی۔ کیونکہ اس کو وہ قوم اور ملک سے پہلی اور سب سے بڑی غدّاری خیال کرتے تھے، بلکہ ملک و ملت کے لئے اہل ترین ایماندار اور دیانتدار لوگ انتخاب کرتے تھے۔ اِسلامی خصوصیات اور متعلقہ شعبہ کے سلسلہ میں خصوصی اہلیت اُن کا معیارِ انتخاب تھا۔ فوج کے لئے صرف فوجی صلاحیت ڈھونڈتے تھے۔ سیاست و انتظام کے لئے سیاسی بصیرت کے حکام کو مقدم رکھتے تھے۔ اور مقدمات اور قضایا کے لئے ’اہل قضا‘ افراد کو آگے لاتے تھے۔ وہ کسی بھی شعبے میں کسی عیاش افسر اور ملازم کو برداشت نہیں کیا کرتے تھے۔ نعمان بن عدی رضی اللہ عنہ نیسان کے حاکم تھے، دولت و نعمت کے مروے میں پڑ کر اُنہوں نے اپنی بیوی کو ایک خط لکھا، جس میں یہ شعر بھی تھا۔ لَعَلَّ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ يَسُوْءُه تَنَاد مُنَا بِالْجَوْسَقِ الْمُتَھَدِّم غالباً امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچے گی تو وہ برا مانیں گے کہ ہم لوگ محلوں میں رندانہ صحبتیں رکھتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کسی طرح اس کی خبر ہو گئی تو اُن کو معزول کر دیا اور لکھا کہ ’ہاں! مجھ کو تمہاری یہ حرکت ناگوار ہوئی۔‘ (اسد الغابہ۔ الفاروق) افسروں اور گورنروں کے انتخاب کے لئے علاقے کے سنجیدہ افراد اور عوام کی طرف رجوع کیا جاتا تھا، جن کو وہ پسند کرتے ان کو مقرر فرماتے۔ نہ چاہتے تو معزول کر دیتے۔ (کتاب الخراج) وہ براہِ راست عوام کے دکھ درد میں شریک رہتے تھے۔ اُن کی روٹی، کپڑے اور مکان اور بنیادی ضروریات کا خیال خیال رکھتے تھے۔ بھیس بدل کر اندھیروں میں گھوم پھر کر حالات کا پتہ چلاتے۔ اگر کوئی مصیبت زدہ فاقوں مر رہا ہوتا تو اُس تک اُں کی ضرورت کی چیزیں پہنچا کر دم لیتے۔ اسی قسم کے بے شمار واقعات کنز العمال میں درج ہیں۔ ان سطور کی تسوید سے عرض یہ بتانا ہے کہ جب کسی ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہوتا ہے تو ان کے حکمران بھی اُس کے مناسب حال اور شایانِ شان ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ ورنہ بے جوڑ ٹانکا، اسلام کو بدنام کر دے گا یا وہ خود برے انجام سے دو چار ہوں گے اور ملک و ملت کو سب سے