کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 8
لَقَدْ صَحِبْتُ أَقْوَامًا يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ فِي سَوَادِ هَذَا اللَّيْلِ سُجَّدًا وَقِيَامًا يَقُومُونَ هَذَا اللَّيْلَ عَلَى أَطْرَافِهِمْ تَسِيلُ دُمُوعُهُمْ عَلَى خُدُودِهِمْ، فَمَرَّةً رُكَّعًا وَمَرَّةً سُجَّدًا يُنَاجُونَ رَبَّهُمْ فِي فِكَاكِ رِقَابِهِمْ،کہ میں ایک ایسی جماعت میں رہا ہوں جو اس کالی رات میں سجدوں اور رکوع میں رات گزار دیا کرتی تھی اور یوں کہ اُن کے رخساروں پر آنسو جاری ہوتے تھے اور اپنے رب کو پکارے جاتے کہ وہ ان کی خلاصی کر دے۔ لقد صحبت أقواما يبيتون لربهم في سواد هذا الليل سجدا وقياما يقومون هذا الليل على أطرافهم تسيل دموعهم على خدودهم فمرة ركعا ومرة سجدا يناجون ربهم في فكاك رقابهم
تختِ حکومت نے ان کے مزاج کو نہیں بگاڑا تھا بلکہ اور بڑھ کر خدمت گزار ہو کر چمکے تھے۔
مدینہ منورہ سے باہر ایک نابینا خاتون رہتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی خدمت کیا کرتے تھے، کچھ دنوں کے بعد محسوس کیا کہ کوئی اور شخص بھی یہ خدمات انجام دے جاتا ہے۔ آخر ایک دن اُسے دیکھ ہی لیا کہ وہ خلیفۂ اوّل حضرت صدیقِ اکب رضی اللہ عنہ ر تھے۔ (کنز العمال)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ آٹے کی بوری اُٹھائے خود بڑھیا کے ہاں لے چلے ہیں۔ (کنز العمال)
بندوں کی خدمت اور اُن سے ہمدردی کی بات تو بڑی چیز ہے۔ انہوں نے چرند پرند کے معاملہ میں بھی انتہائی دل سوزی کے نمونے چھوڑے ہیں۔
کسی شخص کی چادر پر حرم کا ایک کبوتر بیٹھ گیا۔ اُس نے اُس کو اُڑا دیا۔ وہ یہاں سے اُڑ کر وہاں جا بیٹھا اور سانپ نے اُس کو کاٹ لیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا کہ اگر یہ اس کو نہ اُڑاتے تو اُس کو یہ حادثہ پیش نہ آتا۔ (مسند شافعی مختصراً)
مسکین نوازی حضرت علی کرم اللہ وجہ کا خصوصی نشان تھا۔ بھُوکے رہتے، اپنے بچوں تک کو بھُوکا رکھتے مگر سوالی کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے (قرآن و حدیث)
علم کے لحاظ سے اُن کے تمام علوم و فنون کا مرجع قرآن و سنت تھا۔ زہد اور تقویٰ کے اعتبار سے ان کی زندگی کے ہر پہلو سے خوفِ خدا اور عشقِ رسول کی احتیاط اور ادب کا رنگ جھلکتا تھا۔ اُن کے دیکھے سے خدا یاد آتا تھا اُن کی سیاسی بصرت اور سوجھ بوجھ سے قیصر و کسرےٰ لرزہ براندام رہتے تھے۔ مگر اُن کے علم اور خدا ترسی کی وجہ سے وہ اپنے عوام کی اُمیدوں کی آماجگاہ تھے۔ ان کی قیادت میں جو معاشرہ تیار ہوا تھا، انتہائی پاکیزہ، باہوش، سخت کوش، ملک و ملت کا وفادار اور حد درجہ باضمیر تھا۔