کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 7
گزار دی۔ کانٹا دیکھا تو بول اُٹھے کہ کاش میں کانٹا ہوتا، جانور کھاتے اور اس طرح میں اُن کے کام آجاتا۔ پرندہ دیکھا تو تڑپ اُٹھتے کہ ان کو قیامت کے حساب کتاب کی تو فکر نہیں، مجھ سے تو یہی اچھے۔ مرنے کا وقت آیا تو کہا کہ میرے گھر کا سب سامان سرکاری بیت المال میں جمع کر دینا اور میرے تن بدن کے انہی کپڑوں کو دھوکہ انہی میں مجھے کفنانا۔ ایک صحابی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: أبو بکر لم یرد الدنیا ولم تردہ وأما عمر فأرادته ولم یردھا (البدایۃ) کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دنیا کی خواہش کی نہ دُنیا نے ان کو چاہا۔ ہاں دنیا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف رُخ ضرور کیا مگر انہوں نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ باقی رہے ہمارے فوجی؟ سو اُن کے متعلق ایک دشمنِ دین کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کیا کہتے تھے۔ ہرقل (ہرکلیس) رومی کو جب شکست ہوئی تو اس نے اس کے بارے میں رپورٹ طلب کی۔ چنانچہ ایک بوڑھے رُومی نے ان سے کہا: من أجل أنهم يقومون الليل ويصومون النهار، ويوفون بالعهد، ويأمرون بالمعروف، وينهون عن المنكر، ويتناصفون بينهم، ومن أجل أنا نشرب الخمر، ونزني، ونركب الحرام، وننقض العهد، ونغضب، ونظلم، ونأمر بالسخط، وننهي عما يرضي الله، ونفسد في الأرض، فقال: أنت صدقتني۔( البداية والنهاية ، ج 7 ص 15) اس لئے کہ وہ (یعنی اسلامی لشکر) رات کو تہجد پڑھتے ہیں، دن بھر روزہ رکھتے ہیں، ایفائے عہد کرتے ہیں بھلے کاموں کا حکم کرتے ہیں برے کاموں سے روکتے اور باہم انصاف سے کام لیتے ہیں (لیکن ان کے برعکس) ہم شراب نوش، بدکار او بدکوش ہیں۔ بد عہدی کرتے ہیں، لوٹ کھسوٹ اور ظلم و عدوان ہمارا شیوہ ہے۔ خدا کو ناراض کرنے والی باتوں کی تلقین کرتے ہیں اور جن اُمور سے رب راضی ہوتا ہے اُن سے روکتے ہیں اور فساد فی الارض کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ سن کر ہرقل نے کہا، ’تم نے سچ کہا۔‘ جب حکام اپنی سرکاری حیثیت میں بھی مذکورہ بالا کردار اور سیرت کے حامل تھے۔ تو ان کے زیر سایہ جو معاشرہ تیار ہوا تھا، اس کی تصویر کھینچتے ہوئے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ (ف ۱۱۰ھ) فرماتے ہیں: