کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 6
قرآن و حدیث کے علم میں ان سب کا مقام بہت اُونچا تھا۔ کیونکہ یہ دونوں اسلامی مملکت کی بناد ہیں، مملکت کا سرکاری مذہب اسلام ہو، اور مملکت کا سربراہ قرآن و حدیث سے بے بہرہ ہو، اس کی نا اہلیت کی سب سے بڑی دلیل سمجھی جاتی تھی۔ دارمی میں ایک روایت ہے کہ مکہ کے ایک گورنر اطلاع دیئے بغیر اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عسفان میں تشریف لے آئے۔ پوچھا کہ ’’پیچھے کس کو مقرر کر کے آئے؟‘‘ عرض کی کہ ’’فلاں غلام کو کیونکہ وہ قرآن حکیم کا بڑا عالم ہے۔‘‘ بس پھر کیا تھا حضرت عمر جھُوم اُٹھے اور فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا: اِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ (مختصراً دارمی :ص: ۴۴۲) کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب (پاک) کے ذریعے بہت سی قوموں کو فعت دیتا ہے اور بہت سی اقوام کو پستی میں گرا دیتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بصرہ کے گورنر تھے، حافظِ قرآن تھے اور جب تلاوت کرتے تو محوّیت طاری ہوجاتی۔ (الاستیعاب) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے گھر میں ایک چھوٹی سی مسجد بنا رکھی تھی۔ جس میں (قبل ہجرت) نماز اور تلاوتِ قرآنِ پاک کیا کرتے تھے۔ آپ جب تلاوت کرتے تو بہت گریہ کرتے۔ (وكانَ أبو بَكْرٍ رَجُلًا بَكَّاءً، لا يَمْلِكُ عَيْنَيْهِ إذَا قَرَأَ القُرْآنَ )۔( بخاری) کفار مکہ اس سے گھبراتے تھے کہ ان کا یہ نظارہ دیکھ کر ہمارے بچے مسلمان ہو جائیں گے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اُن سے فرماتے۔ ہم کو خدا کا شوق دلاؤ یعنی قرآن سناؤ اور پھر پوری محوّیت سے سنتے۔ (ابن سلام) مؤرخین نے تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قرآن حکیم سے استدلال کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے شغف بالقرآن کا اندازہ صرف اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ تلاوت کرتے وقت ان کا سر قلم کیا گیا تھا۔ (استیعاب) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تفسیر اور قرآنی علوم میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ اُن کا یہ دعویٰ تھا کہ میں بتا سکتا ہوں کہ یہ آیت کہاں، کیوں اور کس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی (ابن سلام) خوفِ خدا کا یہ عالم تھا کہ اگر کبھی اچھی چیز کھانے پینے کے لئے سامنے آگئی تو وہاں رہ گئی، بس رو رو کر