کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 5
اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ (عنکبوت) ’’یقین کیجئے! نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔‘‘ شراب کی لت بتدریج چھوٹی جاتی ہے، کیونکہ حکم ہے کہ: لَا تَقْرَبُوْا الصَّلوٰۃَ وَاَنْتُمُ السُّکَارٰی (نساء) ’نشہ میں نماز کے قریب نہ جایا کرو۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو تارکِ نماز ہے اس کا حشر وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَھَامَانَ وَفِرْعَوْنَ وَاُبَیِّ بْنِ خَلَفٍ''۔ (مشکوٰۃ) قیامت کے دن قارون، ہامان اور (رئیس المنافقین) ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ ظاہر ہے جن لوگوں کا سفر ’قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف جیسے جبابرہ اور منافق لوگوں کی طرف جاری رہتا ہے وہ جمہوری لیڈر نہیں بن سکتے اور نہ ملک و ملت کے لئے (ظل اللہ) اللہ کا سایۂ رحمت ثابت ہو سکتے ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ہمارے برحق خلفاء نماز کی حالت میں شہید ہوئے یا نماز کی تیاری کرتے ہوئے محرابِ مسجد میں شہادت پائی یا تلاوتِ قرآن کرتے ہوے خنجر کا نشانہ بنے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی تو خنجر کا نشانہ بنے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تلاوت کرتے ہوئے جب آپ ’فسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم‘ پر پہنچے تو سر تن سے جدا ہوا، حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے۔ نمازیوں کو جگا رہے تھے کہ خنجر چلا اور محراب مسجد میں جا گرے۔ اور بقول شیعان علی حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سجدہ میں ہی جان، جان آفریں کے حوالے کی۔ ہمیں پاکستان جیسی اسلامی مملکت کے لئے وہ حکمران نہیں چاہئیں، جن کا دل مسجد سے زیادہ میخانے میں لگتا ہو۔ قسمت سے مسجد میں جائیں تو کیمرے اُن کی مدد کو پہنچیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے سامنے اُن حکمرانوں کے ایک دو پہلو اور چند حالات رکھے جائیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلامی مملکت کا چارج سنبھالا اور پھر اس کا حق ادا کر دیا۔ تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ وہ اسلامی مملکت، جس کے لئے اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے، کی دستور ساز اسمبلی کے اراکین، وزراء اور صدر کیسے ہونے چاہئیں؟