کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 48
جلد اوّل شائع ہوئی ہے جس میں کتاب کے پہلے دو حصے شامل ہیں اور اس میں 180 افراد کا تذکرہ ہے۔ مترجم مفتی محمود عالم ہاشمی نے آغازِ کتاب میں مؤلّف کے حالاتِ زندگی اور اُن کی علمی خدمات پر وقیع مضمون لکھا ہے۔ جس سے کتاب کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ترجمہ سادہ اور پُر اثر ہے۔ نیز حواشی خاصے معلومات افزا ہیں۔ اس کتاب کا ہر باذوق شخص کی نگاہ سے گزرنا ضروری ہے۔ اعلیٰ کتابت و طباعت اور مضبوط و خوبصورت جلد کے پیش نظر قیمت واجبی ہے۔ ایسی کتابوں کی زائد از زائد خریداری ہی علم کی سرپرستی ہے اور اہل علم کے تعاون ہی سے ناشرین اعلیٰ درجے کی کتابیں پیش کر سکتے ہیں۔ ابھی سی راہِ محبت کی مشکلات نہ پوچھ! عبد الرحمٰن عاجزؔ مالیر کوٹلوی دلِ حزیں پہ گزرتی ہے کیا یہ بات نہ پوچھ تو حالِ زار مرا دیکھ، واقعات نہ پوچھ نگاہِ غور سے اس حشرِ کائنات کو دیکھ وجودِ باری پہ آیات بیّنات نہ پوچھ بس ایک جلوے سے بیہوش ہو گئے موسیٰ خدا کے نورِ مبیں کی تجلّیات نہ پوچھ مثالِ برف کبھی کا پگھل چکا ہے شبا ہیں اب بھی دل میں مرے کتنی خواہشات نہ پوچھ بشر وہی ہے کہ ہے جس کے دل میں خوفِ خدا تو پوچھ نام نہ اس کا تو اس کی ذات نہ پوچھ قدم قدم پہ خطا تھی، نفس نفس میں گناہ بڑھاپے میں تو جوانی کے حادثات نہ پوچھ ہے نزع و قبر و قیامت کا سامنا جن کو مرے عزیز تو ان کے تفکرات نہ پوچھ ابھی تو منزلِ مقصود ہے بہت آگے ابھی سے راہِ محبت کی مشکلات نہ پوچھ خدا کا شکر ہے جس حال میں ہوں اچھا ہوں گزر رہی ہے یہ کس رنگ سے حیات نہ پوچھ زباں پہ دعوٰے توحید ہے مگر افسوس دلوں میں کتنے نہاں ہیں توہمات نہ پوچھ مریضِ عشق ہوں میں تو‘ اسیرِ حرص و ہوس تو اپنی بات نہ کر، میرے واردات نہ پوچھ جوارِ کعبہ میسر رہا ہے بارہ برس! خدائے پاک کی مجھ پہ نوازشات نہ پوچھ زباں پہ آ نہیں سکتا وہاں جو دیکھا ہے ت و اس فضائے حسیں کے مشاہدات نہ پوچھ سیاہ کار ہے عاجزؔ جہاں سے بد تر ہے تو دیکھ اپنا کرم، اس کے سیّأت نہ پوچھ