کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 44
حضرت مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ صاحب امرتسری رحمہ اللہ اور تردیدِ عیسائیت جناب اختر راہی (ایم اے۔ تاریخ و سیاسیات) مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف اپنے دور کے عظیم انسان ہیں بلکہ برصغیر ہند و پاک کے علمائیں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ دیگر متعدد خوبیوں کے علاوہ اُن کی خوش بیانی اور مناظرہ کی مہارت کے تو غیر بھی معترف ہیں، تقسیم ہند سے قبل تقریباً نصف صدی تک غیر مسلموں اور گمراہ فرقوں سے ان کی ٹھنی رہی اور مہارت فن اور عظیم الشان کامیابیوں کی بنا پر رئیس المناظرین اور شیر پنجاب کے لقب سے معروف ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا موصوف اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں بہت حساس واقع ہوئے تھے، اور ایسے فتنوں کو ابتداء ہی میں بھانپ لیا کرتے تھے۔ جو اس سلسلہ میں بعد میں نقصان کا سبب بن سکتے ہوں، جس کسی نے ان کے خلاف زبان کھولی یا قلم اُٹھایا اس کا حملہ روکنے کے لئے شمشیر بے نیام ہوتے تھے، آج سے پچاس سال قبل قادیانی، اُمت مسلمہ میں نقب لگا رہے تھے، آریہ سماجی مسلمانوں کے دین و ایمان کے در پے تھے اور مسیحی مشنری، حکومت کی سرپرستی میں صلیبیں گاڑ رہے تھے، مولانا مرحوم نے ان گروہوں سے چومکھی لڑائی لڑی اور ایسے تابڑ توڑ حملے کئے کہ مخالفین کو اپنی کمین گاہوں میں پناہ لیتے ہی بنی۔ افسوس مولانا کی سعی و جہد کا اسلامی سطح پر خاکہ کھینچنے کے لئے ہنوز کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی، ورنہ مولانا کی خدمات کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ اس صحبت میں ہم مولانا کی ردّ عیسائیت کے سلسلہ میں کی گئی چند مساعی جمیلہ کا مختصر تذکرہ کریں گے۔ جیسا کہ اُوپر بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو مناظرے کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ ان کے بارے میں بلا شائبہ تردید کہا جا سکتا ہے۔ ؎ عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں۔ ان کے طریقِ مناظرہ میں ایسی خصوصیات تھیں جو بمشکل ہی کسی مناظر میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ 1. موصوف نے فریق مخالف کی کبھی تذلیل نہ کی۔ 2. رفع اعتراض کے لئے جواب میں ہمیشہ مختصر مگر با معنی و پُر مغز گفتگو کرتے تھے۔ 3. دوران گفتگو شعروں کے بر محل استعمال سے کلام کو رنگین بناتے تھے۔