کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 42
اور پھوٹ والے اعمال کر کے اُمت کو توڑا ہو گا، وہ قیامت کے دن قبروں سے کالے منہ اُٹھیں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ تم نے ایمان و اسلام کے بعد کفر والوں کا طریقہ اختیار کیا، اب تم یہاں دوزخ کا عذاب چکھو اور جو ٹھیک راستہ پر چلتے رہے ہوں گے اُن کے چہرے نورانی اور چمکتے ہوئے ہوں گے۔ اور وہ ہمیشہ اللہ کی رحمت میں اور جنت میں رہیں گے۔‘‘ میرے بھائیو دوستو! یہ سب آیتیں اس وقت اُتری تھیں، جب یہود نے نصاریٰ میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی اور اُن کے دو قبیلوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا تھا۔ اِن آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی پھوٹ اور لڑائی کو کفر کی بات کہا گیا ہے اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ آج ساری دُنیا میں اُمت کو توڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ اس کا علاج اور توڑ یہی ہے کہ تم اپنے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم والی محنت میں لگا دو، مسلمانوں کو مسجدوں میں لاؤ، وہاں ایمان کی باتیں ہوں، تعلیم اور ذکر کے حلقے ہوں دین کی محنت کے مشورے ہوں، مختلف طبقوں کے اور مختلف برادریوں کے اور مختلف زبانوں والے لوگ مسجد نبوی کے طریقہ پر ان کاموں میں جُڑیں۔ ان باتوں سے بچیں جن سے شیطان کو پھوٹ ڈالنے کا موقع ملے، جب تین بیٹھیں تو اس کا خیال رکھیں کہ چوتھا ہمارے ساتھ اللہ ہے۔ چار پانچ بیٹھیں تو ہمیشہ یاد رکھیں کہ پانچواں یا چھٹا اللہ ہمارے ساتھ ہی موجود ہے۔ اور وہ ہماری ہر بات سن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ ہم اُمّت بنانے کی بات کر رہے ہیں یا اُمت توڑنے کی۔ ہم کسی کی غیبت اور چغل خوری تو نہیں کر رہے، کسی کے خلاف سازش تو نہیں کر رہے۔ یہ اُمّت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خون اور فاقوں سے بنی تھی۔ اب ہم اپنی معمولی معمولی باتوں پر اس کو توڑ رہے ہیں، یاد رکھو نماز جمعہ چھوڑنے پر اتنی پکڑ نہیں ہو گی جتنی اُمت کے توڑنے پر ہو گی۔ اگر مسلمان پھر سے اُمت بن جائیں تو وہ دنیا میں ہرگز ذلیل نہ ہوں گے، رُوس اور امریکہ کی طاقتیں بھی اُن کے سامنے جھکیں گی اور اُمّت تب بنے گی جب ’اَذِلَّةٍ عَلَيْ الْمُؤْمِنِيْنَ‘ پر مسلمانوں کا عمل ہو۔ یعنی ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے مقابلہ میں چھوٹا بننے اور ذلّت و تواضع اختیار کرنے کو اپنائے۔ جب مسلمانوں میں یہ صفت آجائے گی تو وہ دنیا میں ’اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ‘ یعنی کافروں کے مقابلہ میں زبردست اور غالب ضرور ہوں گے چاہے وہ کافر یورپ کے ہوں یا ایشیا کے۔ میرے بھائیو دوستو! اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں سے شدت اور سختی سے منع فرمایا ہے جن سے دلوں میں