کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 4
کر ترمیمیں قبول کیں اور قوم کو دستور دیا۔ اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ عملی میدان میں اس کا کیا حشر ہو۔ کیونکہ دستور کی رُوح کا تحفظ، دستور کے الفاظ اور دفعات کے ذریعے بہ مشکل ہوتا ہے، اس کو اگر امان مل سکتی ہے تو وہ صرف ’نیک نیتی، خدا خوفی اور ملک دوستی‘ کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔ دستور کے الفاظ اور دفعات کو ایچ پیچ اور شاطرانہ تاویلوں ک ذریعے شکار کرنا کچھ زیادہ مشکل بات نہیں ہوتی اور یہ خطرہ اور اندیشہ بدستور باقی ہے۔ کیوں کہ اس دستور کی جان جن لوگوں کے قبضہ میں ہے، وہ نہیں بدلے۔ یہ وہی ہیں جو منشور دے کر پوری قوم کے سامنے اُڑ گئے ہیں کہ روٹی، کپڑا اور مکان کی ضمانت کی باتیں قبول کرنا مشکل ہے۔ جو اپنے منشور کو پسِ پشت ڈال سکتے ہیں۔ وہ اس دستور کے ساتھ کیا کچھ نہیں کریں گے جو بڑی مشکل سے اُن سے اگلوایا گیا ہے۔
اگر پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے تو اُس کے فرمانرواؤں کو اسلامی علم و حکمت اور کردار کا حامل ہونا چاہئے۔ ورنہ ’زبانِ یار من تر کی ومن ترکی نمی دانم‘ والی بات رہے گی۔ وہ بھلے آدمی جن پر ایک اسلامی حکومت بھروسہ کر سکتی ہے، اُن کی سیرت کا جلی عنوان اور پاک زندگی کی شہ سُرخی ’اقامتِ نماز‘ ہے جو لوگ اس سلسلہ میں خام ہوتے ہیں۔ وہ کاروبار حکومت کے اور کسی شعبہ میں بھی قابلِ اعتماد نہیں رہتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مملکت کی کلیدی اسامیوں کے حکمرانوں کو تحریر فرمایا تھا کہ:
ان اھم اُمورکم عندی الصلوٰۃ من حفظھا وحافظ عليھا حفظ دينه ومن ضيعھا فھو لما سواھا ضي (موطا مالك)
’’تمہارے سب کاموں سے میرے نزدیک جو بات سب سے اہم ہے وہ نماز ہے، جس نے اس کو یاد رکھا اور اس کا کما حقہ تحفظ کیا اس نے اپنے دین کو محفوظکر لیا اور جس نے اس کو ضائع کر دیا تو اس کے علاوہ اور ہر شے کے لئے اس کو غارت گر تصور کیا جائے گا۔‘‘
کیونکہ نماز خدا کے قرب کا باعث ہے:
وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (علق) سجدہ کر (یعنی نماز پڑھ) اور قریب ہو جا!
سرکاری مذہب رکھنے والی مملکت کے سربراہ کو ’خدا کا مقرب‘ ہونا چاہئے تاکہ اس کے ملک میں صحیح نیابت کا فریضہ انجام دے سکے۔ نماز اسلامی سیرت کی تشکیل میں بڑی معاون ثابت ہوتی ہے۔ ان بے حیائیوں اور منکرات سے روکتی ہے جو ’بندۂ مومن‘ کی سیرت کو کھوکھلا کر دیتی ہے: