کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 39
اعتبار سے بڑے اور خواص سمجھے جاتے تھے، اُنہوں نے مشورہ سے باہم طے کیا کہ تقسیم اس طرح پر ہو کہ سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے والوں کو دیا جائے اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ والوں کو، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ والوں کو اِس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اقارب تیسرے نمبر پر آئے۔ جب یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھی گئی تو آپ نے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ اس اُمت کو جو کچھ ملا ہے اور مل رہا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اور آپ کے صدقے میں مل رہا ہے، اس لئے بس حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے تعلق کو معیار بنایا جائے جو نسب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب ہوں اُن کو زیادہ دیا جائے جو دوم، سوم، چہارم نمبر پر ہوں اُن کو اُسی نمبر پر رکھا جائے۔ اس طرح سب سے زیادہ بنی ہاشم کو دیا جائے، اس کے بعد بنی عبد المناف کو، پھر قصی کی اَولاد کو، پھر کلاب کو، پھر کعب کو، پھر مرّہ کی اولاد کو، اس حساب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بہت پیچھے پڑ جاتا تھا اور اُس کا حصہ بہت کم ہو جاتا تھا۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہی فیصلہ کیا اور مال کی تقسیم میں اپنے قبیلہ کو اسی قدر پیچھے ڈال دیا۔ اور اس طرح اُمّت بنانے کی خاطر آپ نے اپنا مفاد دوسروں پر قربان کر دیا۔ اُمت بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سب کی یہ کوشش ہو کہ آپس میں جوڑ ہو، پھوٹ نہ پڑے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مضمون ہے کہ قیامت میں ایک آدمی لایا جائے گا جس نے دنیا میں نماز، روزہ، حج، تبلیغ سب کچھ کیا ہو گا مگر وہ عذاب میں ڈالا جائے گا، کیونکہ اُس کی کسی بات نے اُمت میں تفریق ڈالی ہو گی اُس سے کہا جائے گا پہلے اپنے اس ایک لفظ کی سزا بھگت لے جس کی وجہ سے اُمت کو نقصان پہنچا اور ایک دوسرا آدمی ہو گا جس کے پاس نماز، روزہ، حج وغیرہ کی بہت کمی ہو گی اور وہ خدا کے عذاب سے بہت ڈرتا ہو گا مگر اس کو بہت ثواب سے نوازا جائے گا۔ وہ خود پوچھے گا کہ یہ کرم میرے کس عمل کی وجہ سے ہے؟ اُس کو بتایا جائے گا کہ تُو نے فلاں موقع پر ایک بات کہی تھی جس سے اُمت میں پیدا ہونے والا ایک فساد رُک گیا اور بجائے توڑ کے جوڑ پیدا ہو گیا۔ یہ سب تیرے اُسی لفظ کا صلہ اور ثواب ہے۔ اُمت کے بنانے اور بگاڑنے میں جوڑنے اور توڑنے میں سب سے زیادہ دخل زبان کا ہوتا ہے۔ یہ دلوں کو جوڑتی بھی ہے اور پھاڑتی بھی ہے، زبان سے ایک بات غلط اور فساد کی نکل جاتی ہے تو اس پر لاٹھی چل جاتی ہے اور ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے اور زبان سے نکلی ہوئی ایک ہی بات جوڑ پیدا