کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 38
تو شیطان نے وہاں کے کچھ مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ یہ دوسرے علاقے کے لوگ، اُن کی بات یہاں کیوں چلے۔ اُنہوں نے اُن کے خلاف بغاوت کرائی، اُن کے کتنے ہی ساتھی شہید کر دیئے گئے اور اس طرح خود مسلمانوں نے علاقائی بنیاد پر اُمت کو توڑا، اللہ نے اس کی سزا میں انگریزوں کو مسلط کیا۔ یہ خدا کا عذاب تھا۔ یاد رکھو ’’میری علاقہ‘‘ اور ’’میری برادری‘‘ یہ سب اُمّت کو توڑنے والی باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کو یہ باتیں اتنی ناپسند ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ جیسے بڑے صحابی سے اس بارہ میں جو غلطی ہوئی (جو اگر دب نہ گئی ہوتی تو اس کے نتیجہ میں انصار اور مہاجرین میں تفریق ہو جاتی) اِس کا نتیجہ حضرت سعد کو دُنیا ہی میں بھگتنا پڑا، روایات میں یہ ہے کہ اُن کو جنات نے قتل کر دیا اور مدینہ میں یہ آواز سنائی دی اور بولنے والا کوئی نظر نہ آیا۔
[1]قتلنا سید الخزرج سعد بن قتادہ رمیناہ بسھم فلم یخط فوادہ
اس واقعہ نے مثال قائم کر دی اور سبق دیا کہ اچھے سے اچھا آدمی بھی اگر قومیّت یا علاقہ کی بنیاد پر اپنی اُمتّی حیثیت کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کو توڑ کے رکھ دے گا۔
اُمّت جب بنے گی جب اُمت کے سب طبقے بلا تفریق اُس کام میں لگ جائیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم دے کے گئے ہیں۔ اور یاد رکھو اُمّت کو توڑنے والی چیزیں معاملات اور معاشرت کی خرابیاں ہیں۔ ایک فرد یا طبقہ جب دوسرے کے ساتھ نا انصافی اور ظلم کرتا ہے اور اُس کا پورا حق اُس کو نہیں دیتا یا اُس کو تکلیف پہنچاتا ہے یا اس کی تحقیر اور بے عزتی کرتا ہے تو تفریق پیدا ہوتی ہے اور اُمت ٹوٹتی ہے اس لئے میں کہتا ہوں کہ صرف کلمہ اور تسبیح سے اُمت نہیں بنے گی۔ اُمّت معاملات اور معاشرت کی اصلاح سے اور سب کا حق ادا کرنے اور سب کا اکرام کرنے سے بنے گی بلکہ جب بنے گی جب دوسروں کے لئے اپنا حق اور اپنا مفاد قربان کیا جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا سب کچھ قربان کر کے اور اپنے پر تکلیفیں جھیل کے اس اُمّت کو اُمّت بنایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک دِن لاکھوں کروڑوں روپے آئے اُن کی تقسیم کا مشورہ ہوا، اُس وقت اُمت بنی ہوئی تھی، یہ مشورہ کرنے والے کسی ایک ہی قبیلہ یا ایک ہی طبقہ کے نہ تھے بلکہ مختلف طبقوں اور قبیلوں کے وہ لوگ تھے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے
[1] ہم نے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو ہلاک کردیا ۔ ہم نے اس کو تیر کا نشانہ بنایا جو ٹھیک اس کے دل پر لگا