کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 37
جوں تک نہیں رینگتی۔
اُمت کسی ایک قوم اور ایک علاقہ کے رہنے والوں کا نام نہیں ہے بلکہ سینکڑوں ہزاروں قوموں اور علاقوں سے جڑ کر اُمت بنتی ہے جو کوئی کسی ایک قوم یا ایک علاقہ کو اپنا سمجھتا ہے اور دوسروں کو غیر سمجھتا ہے، وہ اُمت کو ذبح کرتا ہے اور اُس کے ٹکڑے کرتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی محنتوں پر پانی پھیرتا ہے۔ اُمت کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پہلے خود ہم نے ذبح کیا ہے۔ یہود و نصاریٰ نے تو اس کے بعد کٹی کٹائی اُمت کو کوٹا ہے۔ اگر مسلمان اب پھر اُمّت بن جائیں تو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتیں۔ ایٹم بم اور راکٹ ان کو ختم نہیں کر سکیں گے۔ لیکن اگر وہ قومی اور علاقائی عصبیتوں کی وجہ سے باہم اُمت کے ٹکڑے کرتے رہے تو خدا کی قسم تمہارے ہتھیار اور تمہاری فوجیں تم کو نہیں بچا سکیں گی۔
مسلمان ساری دنیا میں اس لئے پٹ رہا اور مر رہا ہے کہ اُس نے اپنی اُمتی حیثیت کو ختم کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی پر پانی پھیر دیا ہے۔ ساری تباہی اس وجہ سے ہے کہ اُمت اُمت نہ رہی بلکہ یہ بھی بھول گئے کہ اُمت کیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اُمت بنائی تھی۔
اُمت ہونے کے لئے اور مسلمانوں کے ساتھ خدائی مدد ہونے کے لئے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ مسلمانوں میں نماز ہو، ذکر ہو، مدرسہ ہو اور مدرسہ کی تعلیم ہو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل ابن ملجم ایسا نمازی اور ایسا ذاکر تھا کہ جب اُس کو قتل کرتے وقت غصہ میں بھرے لوگوں نے اُس کی زبان کاٹنی چاہی تو اُس نے کہا سب کچھ کر لو لیکن میری زبان مت کاٹو تاکہ زندگی کے آخری سانس تک میں اس سے اللہ کا ذکر کرتا رہوں لیکن حضور نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ کا قاتل میری اُمّت کا سب سے زیادہ شقی اور بد بخت ترین ہو گا اور مدرسہ کی تعلیم تو ابو الفضل اور فیضی نے بھی حاصل کی تھی اور ایسی حاصل کی تھی کہ قرآن پاک کی تفسیر بے نقط لکھ دی۔ حالانکہ اُنہوں نے ہی اکبر کو گمراہ کر کے دین کو برباد کیا تھا، تو جو باتیں ابن ملجم اور ابو الفضل، فیضی میں تھیں وہ اُمت بننے کے لئے اور خدا کی غیبی نصرت کے لئے کیسے کافی ہو سکتی ہیں؟
حضرت شاہ اسمٰعیل شہید رحمہ اللہ اور حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ اور اُن کے ساتھی دینداری کے لحاظ سے بہترین نمونہ تھے، وہ جب سرحدی علاقے میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں نے اُس کو اپنا بڑا بنا لیا