کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 36
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ترتیب: مولانا عبد العزیز کھلنویؔ اُمّت بنو، اِنتشار سے بچو مولانا مرحوم نے یہ تقریر اپنے وصال سے صرف تین روز قبل رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع میں کی تھی اور آپ کی زندگی کی یہ آخری تقریر تھی۔ اُمت مسلمہ بڑی مشقت سے بنی ہے، اس کو امت بنانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بڑی مشقتیں اُٹھائی ہیں اور اُن کے دشمنوں یہود و نصاریٰ نے ہمیشہ اس کی کوششیں کی ہیں کہ مسلمان ایک امت نہ رہیں بلکہ ٹکڑے ٹکڑے ہوں۔ اب مسلمان اپنے اُمّت ہونے کی صفت کھو چکے ہیں۔ جب تک یہ اُمّت بنے ہوئے تھے چند لاکھ ساری دنیا پر بھاری تھے۔ ایک پکّا مکان نہیں تھا۔ مسجد تک پکی نہیں تھی۔ مسجد میں چراغ تک نہیں جلتا تھا، مسجد نبوی میں ہجرت کے نویں سال چراغ جلا تھا۔ سب سے پہلا چراغ جلانے والے تمیم داری رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ 9 ؁ھ میں اسلام لائے اور 9 ؁ھ تک نہ صرف قریب قریب سارا عرب اسلام میں داخل ہو چکا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت عرب کے باہر بھی پھیل چکی تھی اور مختلف قومیں، مختلف زبانیں، مختلف قبیلے ایک اُمت بن چکے تھے۔ پھر یہ اُمت دنیا میں اُٹھی جدھر کو نکلی ملک کے ملک پیروں میں گرے۔ یہ اُمت اس طرح بنی تھی کہ ان کا کوئی آدمی اپنے خاندان، اپنی برادری، اپنی پارٹی، اپنی قوم، اپنے وطن، اپنی زبان کا حامی نہ تھا۔ مال و جائیداد اور بیوی بچوں کی طرف دیکھنے والا بھی ہ تھا۔ بلکہ ہر آدمی صرف یہ دیکھا تھا کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں۔ اُمت جب ہی بنتی ہے جب اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مقابلہ میں سارے رشتے اور سارے تعلقات کٹ جائیں۔ جب مسلمان ایک اُمت تھے تو ایک مسلمان کے کہیں قتل ہو جانے سے ساری اُمت ہل جاتی تھی۔ اب ہزاروں لاکھوں کے گلے کٹتے ہیں اور کانوں پر