کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 33
جیسا کہ سورہ یٰسین میں ہے: وُکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ سو آپ کا یہ فرمانا کہ اہل سنت وہی ہو سکے گا جو کسی امام کا مقلد ہو گا غلط ہو گیا بلکہ اہل سنت وہ ہو گا جو آپ کی کل حدیثوں پر عمل کرے گا جیسے ہم اہل حدیث کا عقیدہ ہے۔ اسی طرح جامع البیان میں ہے، لہٰذا آپ کا اس آیت سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مراد لینا غلط ثابت ہوا، آپ یونہی پھولے پھرتے ہیں اور صحیح مطلب کا پتہ ہی نہیں۔ نہ حدیث دیکھتے ہیں نہ تفسیر، زبانی زبانی ہی سب کچھ بنا رکھا ہے۔ 30. ہم اہلِ حدیث محمدی صلی اللہ علیہ وسلم جہاز پر سوار ہیں اور ہمارے ناخدا سید الکونین امام الانبیاء ختم الرسل ہیں، جن سے بہتر کوئی ناخدا ممکن ہی نہیں۔ مقلدین، جہازِ محمدی چھوڑ کر تقلید کی کمزور کشتی پر سوار ہو گئے ہیں۔ جس کا نا خدا ایک امتی ہے جو خطا اور غلطی سے معصوم نہیں: المجتھد یخطی ویصیب مجتہد سے غلط اور صحیح دونوں کا امکان ہے۔ آپ ہی کا مسلمہ ہے۔ چنانچہ امام صاحب رحمہ اللہ کا اپنی زندگی میں بہت سے مسائل سے رجوع کرنا ثابت ہے۔ یہ دلیل ہے اس کی کہ امام صاحب رحمہ اللہ سے خطائیں ہوئی ہیں اور امام صاحب نے خود ثابت کر دیا کہ میرے پہلے مسائل غلط ہیں اور نئے صحیح ہیں۔ یہ اچھی ذمہ داری ہے؟ سو مقلدین کا انجام غرقابی ہونا ممکن ہے نہ کہ اہلحدیث کا۔ کیونکہ ان کے نا خدا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مجتہد ہیں جو غلطی بھی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی کشتی ڈوبی کہ اب ڈوبی۔ نیز امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تخصیص کس آیت یا حدیث میں آئی ہے؟ 34. غلط کہتے ہو، اہلحدیث تو سید الکونین فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری پر سفر کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان کو کئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ جس کشتی کا نا خدا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہو اس کا پار لگنا ناگزیر ہے۔ یہ ہمارا اٹل عقیدہ ہے اور اگر آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی نا خدا کی تلاش میں ہیں تو یہ آپ کی عقل کا فتور ہے۔ تنبیہ: اب میں آخر میں ایک دو حدیثیں ایسی ذکر کرتا ہوں جن سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اہلحدیث