کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 32
کی تقلید پر قانع ہو گئے اور ان کے احترام میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو غرام و حلال کا مالک سمجھ بیٹھے، جس کو وہ حلال کہیں حلال اور جس کو حرام کہیں حرام جانا۔ لیکن اہلحدیث نے سب ائمہ و علماء مجتہدین کو بیک نظر دیکھا اور ان کا پورا احترام کیا اوران کی ہر صحیح بات کو جو قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہو، مانا۔ ان میں سے نہ کسی کی محبت میں غلو کیا نہ کسی کو چھوڑا سب کو آسمان کے ستارے اور ہدایت کے چراغ سمجھا: فتلک آباء فجئنی بمثلھم یعنی یہ سارے ہمارے بزرگ ہیں ان جیسے کوئی لا کر دکھائے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہم اہلحدیث کو راہِ اعتدال نصیب فرمائی اور دعا ہے: آں امامانِ کر دند اجتہاد رحمت حق بر روانِ جملہ باد یہاں آپ کو لفظ ‘حدیث‘ کے بجائے لفظ ’سنت‘ لکھنا چاہئے تھا کیونکہ آپ تو سنت کو مانتے ہیں نہ کہ حدیث کو۔ 27. امام صاحب تقریباً ایک صدی بعد پیدا ہوئے ہیں اور کچھ عرصہ 40-50 سال تعلیم و تعلم میں صرف ہوئے ہوں گے تب کہیں امامت کے مقام پر پہنچے ہوں گے۔ سو اس ڈیڑھ صدی کے مسلمانوں نے بغیر امام مجتہد کے نور کے حدیث سمجھی تھی یا نہیں اور وہ ناجی ہوئے یا ان کا انجام غرقابی ہے؟ فتفکر ولا تکن من المعتدین......! امام صاحب حدیث کیا سمجھائیں گے؟ جب کہ ان کے علمِ حدیث کا یہ حال ہے کہ صحاح ستہ میں ان سے کوئی ایک حدیث بھی مروی نہیں نہ ان کی کوئی حدیث کی کتاب ہے۔ 28. اپنے منہ میاں مٹھو بننا اور اپنی تعریف خود کرنا اور بغیر ثبوت و دلیل دعوے پر دعوے کیے جانا انسانیت نہیں ہے۔ 29. اماموں سے مراد انبیاء علیہم السلام ہیں، چنانچہ تفسیر جلالین ص ۲۳۴ میں ہے: يَومَ نَدعُوا كلَ أناسٍ بِإِمَامِهِمْ: نَبِيّهمْ فَيُقَال يَا أُمَّة فُلَان أَوْ بِكِتَابِ أَعْمَالهمْ فَيُقَال يَا صَاحِب الشَّرّ ۔ یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے انبیاء کے نام سے پکاریں گے یعنی فرمائیں گے، اسے فلاں نبی کی امت یا امام سے مراد اعمال نامے ہیں کیونکہ امام کے معنی کتاب بھی آتے ہیں۔