کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 29
21. آپ کی کم علمی کی حد ہو گئی۔ اگر آپ نے صرف مشکوٰۃ ہی پڑھی ہوتی تو یہ غلطی نہ کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لازم پکڑنے کا حکم نہیں فرمایا۔ گوشِ ہوش سے سنو: عَنْ أَبِي رَافِعٍ - قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي بِمَا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ : لَا أَدْرِي ، مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ ۔ رواه احمد وابو داود والترمذي وابن ماجة والبيهقي في دلائل النبوة (مشكوٰة ص ۲۹) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ تخت پر مزے سے بیٹھے اور اس کو میرا کوئی امر یا نہی پہنچے اور وہ کہے میں کچھ نہیں جانتا۔ ہم تو جو کتاب اللہ میں پائیں گے اس کی اتباع کریں گے۔ قوله لا أدري الخ اي لا أعلم غير القراٰن والمعني لا يجوز الاعراض عن حديثه صلی اللہ علیہ وسلم لأن المعرض عنه معرض عن القراٰن یعنی میں غیر قرآن کو نہیں جانتا۔ اس حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منہ پھیرنا قطعاً جائز نہیں کیونکہ حدیث سے منہ پھیرنا قرآن سے منہ پھیرنا ہے۔ کیوں صاحب!! اس حدیث میں حدیث لازم پکڑنے کا امر ہے یا نہیں؟ اور ملاحظہ فرمائیے: عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِببٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلا إِنِّي أُوتيت الْكتاب وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ الله كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمُ لحم الْحِمَارُ الْأَهْلِيُّ وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبَاعِ ۔ الحديث رواه ابو داؤد والدارمي وابن ماجة (مشكوٰة ص ۲۹) یعنی مقدام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا ہے یعنی مجھے صرف قرآن ہی نہیں بلکہ قرآن کے ساتھ حدیث بھی خدا کی طرف سے ملی ہے جس کی اطاعت قرآن کی طرح فرض ہے۔ ممکن ہے کوئی شکم سیر