کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 28
اس حدیث میں اور اس کے علاوہ اور بے شمار احادیث میں سنت سے مراد حدیث آیا ہے۔ اور نہایہ ابن الاثیر میں ہے: قد تكرر في الحديث ذكر «السنة» وما تصرف منها. والأصل فيها الطريقة والسيرة، وإذا أطلقت في الشرع فإنما يراد بها ما أمر به النبي صلى الله عليه وسلم ونهى عنه وندب إليه قولا وفعلا، مما لم ينطق به الكتاب العزيز ولهذا يقال في أدلة الشرع: الكتاب، والسنة، أي: القرآن والحديث ((جلد ۲، ص ۱۸۶)) یعنی لفظِ سنت کا ذکر احادیث میں بہت ہے اور لغوی معنیٰ اس کا طریقہ اور سیرت ہے لیکن جب شریعت میں سنت بولا جائے تو اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہوتی ہے۔ یعنی جو کتاب اللہ میں نہیں آیا۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان فیض ترجمان سے ارشاد فرمایا ہے۔ کسی چیز کا امر کیا ہے یا کسی چیز سے منع فرمایا ہے اسی واسطے ادلہ شرع میں کہا جاتا ہے کتاب و سنت، یعنی قرآن و حدیث۔ محدثین بھی ’سنت‘ بول کر ’حدیث‘ مراد لیتے ہیں جیسا کہ مشکوٰۃ وغیرہ میں ہے: باب الاعتصام بالکتاب والسنة (مشکوٰۃ ص ۲۷) اس پر مشکوٰۃ میں حاشیہ لکھا ہے: قَولُه السُّنَّة :وَالْمُرَادُ بِالسُّنَّةِ هُنَا أَقْوَالُهُ وَأَفْعَالُهُ وَأَحْوَالُهُ الْمُعَبَّرُ عَنْهَا بِالشَّرِيعَةِ وَالطَّرِيقَةِ وَالْحَقِيقَةِ، (مرقاة۔ مشكوٰة ص ۲۷) یعنی یہاں سنت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و احوال اور افعال ہیں جن کو دوسرے الفاظ میں شریعت، طریقت اور حقیقت کہتے ہیں۔ فقہاء حنفیہ بھی ’سنت‘ بول کر ’حدیث‘ مراد لیتے ہیں جیسا کہ نور الانوار میں ہے: اعلم أن أصول الشرع ثلٰثة: الكتاب والسنة وإجماع الأمة یعنی اصل دلائل شرع کے تین ہیں۔ کتاب اللہ، حدیث اور اجماعِ امت۔ پس آپ کی مذکورہ بالا پیش کردہ حدیث میں سنت سے مراد حدیث ہو سکتی ہے تو آپ کی پیش کردہ حدیث ہی سے حدیث کا لازم پکڑنا ثابت ہو گیا، وھو عین المراد اور یہی مقصود ہے۔