کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 27
جیسا کہ ارشاد ہے: لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا الآية۔ پھر خواہ مخواہ آپ ممکن کو ناممکن اور ضدین سمجھ رہے ہیں۔ یہ آپ کی کوتاہ علمی ہے۔ بر ایں عقل و دانش بباید گریست۔ جب ہر حدیث پر عمل ممکن ہے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین نے کر کے دیکھا یا ہم اہل حدیث کرتے ہیں تو جو شخص اس معنی سے اپنے آپ کو اہل حدیث کہے، وہ بالکل سچا ہے اور یہ نام بھی بالکل درست ہے اور اس کے سارے کام بھی اللہ کے فضل سے درست اور مقبول ہیں کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے اعمال مقبول اور کھرے ہیں اور جو صحیح حدیث کو چھوڑ کر یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے اعراض کر کے کسی اُمتی امام معین کی رائے قیاس پر عمل کرے وہ گھاٹے اور دھوکے میں ہے۔ قیامت کو حسرت سے اپنے دونوں ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھایا کرے گا اور اس کا کوئی علا نہ ہو سکے گا۔ چنانچہ قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے: وَیَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا 0 يٰوَيْلَتٰيْ لَيْتَنِيْ اَتَّخِذْفُلَانًا خَلِيْلًا 0 لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاءَنِيْ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا 0 وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا 0 20. سنت کا معنیٰ ’طریقہ‘ بھی ہے اور ’حدیث‘ بھی۔ چنانچہ ابھی ذکر ہو گا۔ اگر آپ کی پیش کردہ حدیث میں سنت سے مراد ’طریقہ‘ لیں تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ طریقہ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال اور عمل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال اور عمل حدیث ہی کی ایک قسم ہے۔ یعنی فعلی حدیث، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں حدیث کے لازم پکڑنے کا ہی حکم دیا ہے۔ فافہم اور اگر سنت سے مراد ’حدیث‘ لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ سنت کا معنیٰ حدیث بھی ثابت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے: (تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃُ رَسُوْلِہٖ ، رواہ فی الموطا (مشکوٰۃ ص ۳۱) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان دونوں کو مضبوط پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ ایک کتاب اللہ دوسری حدیثِ رسول اللہ۔