کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 26
کے تصدیق کرنے کے بعد باقی نماز پوری کی اور سجدہ سہو کیا۔ اس کو بخاری مسلم نے روایت کیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عصر کی تین رکعت پڑھائیں اور گھر چلے گئے۔ ذو الیدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے چادر کھینچتے ہوئے آئے اور فرمایا کیا یہ سچ کہتا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہاں، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھائی اور بعد از سلام سجدہ سہو کیا اس کو مسلم نے روایت کیا۔ (مشکوٰۃ ص 93) ان واقعات سے ثابت ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسیان یا اجتہادی خطا سے سر زد ہوئے ان کی اتباع کا ہمیں حکم نہیں۔ آپ خوا مخواہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم ان پر ہی عمل کریں۔ یہ آپ کی کم عملی اور کم فہمی پر دال ہے۔ اس طرح ہر حدیث پر عمل ہو گیا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی غلطی کی اصلاح کا حکم دیا ہے نہ کہ غلطی کی اتباع کرنے کا۔ آپ ہمیں حدیث سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں اور خود حدیث میں کمزور ہیں۔ 18. آپ صرف حدیث کا نام لیتے ہیں حالانکہ قرآن میں بعض اجتہادی غلطیاں اور نسیان مذکور ہیں چنانچہ اسارٰے بدر سے فدیہ لے کر چھوڑ دینا اور شہد اور لونڈی ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام ٹھہرانا، جیسا کہ ارشاد ہے: لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاةَ اَزْوَاجِكَ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو آپ کے لئے حلال کیا ہے اس کو اپنی ازواج مطہرات کو خوش کرنے کے لئے کیوں حرام کرتے ہیں؟ تو آپ کو چاہئے کہ ان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں اور شہد وغیرہ اپنے پر حرام ٹھہرائیں، جب آپ خود اس پر عامل نہیں تو ہم پر کیا اعتراض کرتے ہیں۔ 19. بہرحال ہر حدیث پر عمل ہو سکتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع فرض ہے اور اسی سے خدا کی محبوبیت حاصل ہوتی ہے اور اسی میں دونوں جہان کی کامرانی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا پورا علم حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا اس کی اتباع ممکن بلکہ فرض ہے۔ نیز حدیث دین کا ایک جزو ہے، یعنی شرع کے چار دلائل ہیں۔ قرآن مجید، حدیث شریف، اجماع امت اور صحیح قیاس، جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں اور ہر دلیل کی اتباع فرض ہے تو حدیث کی اتباع فرض ہے۔ جب حدیث کی اتباع فرض ہوئی تو ہر حدیث پر عمل کرنا عین ممکن ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور رؤف و رحیم ہے۔ اپنے کمزور بندوں پر تکلیف ما لا یطاق فرض نہیں کرتے۔