کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 25
رسائل و مسائل
کیا عامل بالحدیث (اہل حدیث) ہونا ممکن ہے؟
شیخ الحدیث مولانا محمد کنگن پوری
زیر نظر آرٹیکل میں جواباً تلخ نوائی تو کسی حد تک گوارا ہو سکتی ہے لیکن جوابات میں بعض جگہ عالمین بالحدیث کے متعلق بھی اجتہاد کے حریف ’فرقہ‘ ہونے کا احساس ہوتا ہے جو پیش کردہ حدیث ’وھی الجماعة (ما أنا علیه وأصحابی) کی صحیح تعبیر نہیں ہے۔ (ادارہ)
17. جب یہ ثابت ہو گیا کہ فلاں فعل یا قول نسیاناً یا اجتہادی غلطی سے سرزد ہوا ہے تو ہم اس کے مکلّف ہی نہیں اور ہمارے لئے وہ جائز ہی نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےکہ اتباع کے بجائے مجھے غلطی یاد دلاؤ تاکہ میں وہ غلطی درست کر لوں۔ چنانچہ مشکوٰۃ میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ:" أنَّ رَسُولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - صَلَّى الظُّهْرَ خَمْساً، فَقِيلَ لَهُ: أزِيدَ في الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ: ومَا ذَاكَ؟ قَالَ: صَلَّيْتَ خَمْساً، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَمَا سَلَّمَ ". وفي رواية قالَ: إنما أنا بشرٌ ، أَنسى كما تنسَون ، فإذا نسيتُ فذَكِّروني (الحديث)
یعنی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھا دی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ کیا نماز میں زیادتی ہو گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت نماز پڑھائی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دو سجدے کیے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جیسا بشر ہوں اور تمہاری طرح ہی بھول جاتا ہوں۔ جب بھول جاؤں، مجھے یاد دلایا کرو۔ اس کو بخاری، مسلم نے روایت کیا۔ (مشکوٰۃ ص 92)
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی غلطی کی اتباع کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کی اصلاح کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جب یاد دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کی اصلاح کر لی اور یہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ کئی دفعہ ایسا ہوا، چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعت نماز پڑھائی، ذو الیدین کے یاد دلانے اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم