کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 24
اختیار کی جاتی ہے جہاں سب کچھ ملحوظ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں سے کچھ ہوتا ہے۔ یعنی سارا نہیں بلکہ سارے میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں، باقی رہا کہ وہ کچھ کیا ہوتا ہے اور اس کی حد کیا مقررّ کی جا سکتی ہے؟ تو فرضی زکوٰۃ میں اس آمدنی کا چالیسواں حصہ ہے جو سال بھر محفوظ رہے اور زکوٰۃ کے علاوہ زیادہ سے زیادہ 3/1 حصہ ہے، خدا کے ہاں یہ مقدار کثیر ہے۔ اس کی نگاہ آپ کی حقیر ’’اٹّی‘‘ پر نہیں، اس دل اور جذبہ پر ہے جو محبوب برحق کی راہ میں لٹ جانے کو پالینا تصوّر کرتا ہے۔ (۲) رَزَقْنٰھُمْ (اُن کو ہم نے دیا) رزق کے معنے، فیضان، مقرر حصہ، روزی، بارش سبھی آتے ہیں۔ جتنا اور جیسا کچھ کسی کے حصہ میں ہے،وہ سب رزق ہے۔ علوم و معارف اور ملکات بھی ’’رزق‘‘ میں داخل ہیں۔ کیونکہ انسان کچھ بھی گھر سے نہیں لایا، جو کچھ اس کے پاس ہے، سب اس کی عطا، دین اور بخشش ہے۔ (۳) یُنْفِقُوْنَ (خرچ کرتے ہیں) اس انفاق میں، ہر وہ سرمایہ آجاتا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ وہ سرمایہ مادی ہو یا رحانی، مالی ہو یا فنّی۔ مالی کی طرف ذہن اس لئے زیادہ جاتا ہے کہ، کسی نہ کسی درجہ اور رنگ میں دوسرے سلسلے عموماً جاری ہی رہتے ہیں، لیکن مالی انفاق کا سلسلہ اتنا عام نہیں ہے اور جتنا ہے اُس کی کیفیت دوسروں سے بالکل مختلف ہے، مالی میں جو دینا ہوتا ہے وہ دے ہی دینا ہوتا ہے، وہ اپنے پاس نہیں رہتا۔ رہے باقی سلسلے، وہ رُوحانی ہوں یا فنّی؟ اُن کا تعلق تعلیم و تربیت سے ہوتا ہے، وہ جتنا بھی کوئی کرے، وہ کم نہیں ہوتے، بلکہ مزید بڑھتے ہیں اس لئے مالی انفاق بڑے ایثار کی بات ہے، دوسروں کو کمی کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ ہاں کم ظرفی اور تنگ نظری کی بات اور ہے۔ بہرحال جو بھی دولت رب نے دی ہے۔ وہ رب کی ہی ہے۔ اس کو محض اس کی رضا کے لئے خرچ کرنا متقیوں کی دوسری نشانی ہے۔ اور قرآن سے کسب فیض کرنے کے لئے تیسری شرط ہے۔ مال دار مال خرچ کریں، اہلِ علم، علم عام کریں، اہل دل، خلقِ خدا کے مردہ دلوں کی فکر کریں، با اثر، خدا کا بول بالا کرنے کے سامان کریں۔ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ مِنَ الْمَالِ وَالْعِلْمِ والجاهِ يُنْفِقُوْن. اياھا في الخير (تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن) اگر یہ چاروں سلسلے اُٹھ کھڑے ہوں، تو مُلک و ملّت کی تقدیریں جاگ اُٹھیں، اور دُنیا کے ساتھ اُن کی آخرت بھی کامیاب رہے۔