کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 23
خیار عباد اللہ اذا رؤا ذکر اللہ (مسند احمد شعب الایمان) ’’اللہ کے بندوں میں سے بہترین وہ بندے ہیں، جن کے دیکھے خدا یاد آجائے۔‘‘ یہ نماز متقیوں کی دوسری نشانی اور قرآن حکیم سے استفادہ کرنے کے لئے شرطِ ثانی ہے۔ جو لوگ اس میں خام ہتے ہیں وہ صحیح متقی نہیں بن سکتے، نہ وہ قرآن حکیم سے مستفید ہو سکتے ہیں اور نہ فہم قرآن کی اُن کے لئے ارزانی ممکن رہتی ہے، چونکہ ملکی دستور ساز اداروں میں نمائندوں کی اکثریت عموماً بے نماز ہوتی ہے۔ اس لئے قرآنِ حکیم کی ترجمانی اور اس سے استفادہ کرنے میں عموماً ناکام ہی رہتے ہیں۔ بلکہ علماء نے لکھا ہے کہ، ترک نماز سے کفر و شرک میں گرفتار ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے توحید کے بعد سب سے پہلی چیز جس کا اللہ تعالیٰ نے امر فرمایا، وہ یہی نماز ہے (سورۃ مدثر: ع ۱) کیونکہ توحید کا تحفظ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے اور نہ پانچ وقت رب کے حضور حاضری دینے کے سوال کوئی شخص حامل قرآن رہ سکتا ہے۔ وَالدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِلَّذِیْنَ يَتَّقُوْنَ افَلَا تَعْقِلُوْنَ 0 وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتَابِ وَاَقَامُوْا الصَّلوٰةَ (الاعراف) الغرض: علماء نے لکھا ہے کہ: یہی وہ عبادت ہے جو کسی شخص سے کسی حال میں بھی ساقط نہیں ہوتی، کھڑے ہو کر نہیں تو بیٹھ کر ہی سہی، بیٹھ کر نہیں تو لیٹ کر ہی سہی، بول نہیں سکتے تو اشاروں سے ہی سہی، کہیں جم کر نہیں پڑھ سکتے تو چلتے ہوئے سہی، سخت خطرہ ہے تو سواری پر سہی جدھر رخ بن پڑے۔ ادھر کو سہی۔ بہر حال نماز کسی حال میں معاف نہیں، اس کے باوجود جو نہیں پڑھتے، اُن کا انجام سخت خطرے میں ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ، علماء لکھتے ہیں یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ0 قُمْ فَاَنْذِرْ 0 وَرَبُّكَ فَكَبِّرْ (مدثر: ع۱) ميں (ربّک فکبّر) سے مراد نماز ہے گویا کہ بعثت کے ساتھ یہ بھی فرض کی گئی تھی۔ چونکہ کفّار کا ڈر تھا۔ اس لئے تین سال تک چھپ کے پڑھی جاتی رہی، اس لئے عام نہ ہو سکی، ہاں اب نماز کی جو شکل ہے وہ اس کی ترقی یافتہ شکل ہے، پہلے، بالکل ابتدائی درجہ میں تھی، مثلاً رات کو غیر موقّت نماز، پھر صبح و شام وغیرہ وغیرہ۔ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ اور جو کچھ ہم نے اُن کو دے رکھا ہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔ (۱) مِمَّا (اس چیز میں سے) یہ اصل میں دو حروف ہیں، مِنْ (سے) اور مَا (چیز) یہ ترکیب وہاں