کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 22
اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاجبُرنِی وَارفَعنِی وَاھدِنِی وَ عَافِنِی وَارزُقنِی اور کبھی صرف اللّٰھم اغفرلی پڑھتے تھے۔ اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے حسبِ سابق دوسرا سجدہ فرماتے، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے، گھٹنوں کو پکڑ کر پاؤں پر سیدھے کھڑے ہو جاتے۔ پھر حسب سابق دوسری رکعتیں ادا کرتے تھے۔ تین اور چار رکعتوں کی صورت میں التحیات کے لئے بیٹھتے اور عبدہ ورسوله تک پڑھ کر اللہ اکبر کہتے ہوئے اُٹھتے اور باقی رکعتیں ادا فرماتے، لیکن اب فرضوں میں فاتحہ کے بعد سورۃ نہیں پڑھتے تھے، ہاں سنن حسب سابق ادا فرماتے۔ آخری التحیات میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھ کر دُعا کرتے، پھر دونوں جانب سلام پھیرتے ہوئے السّلام علیکم ورحمة کہتے۔
ظہر میں چار ۴ فرض، اُن سے پہلے چار ۴ اور بعد میں دو ۲ سنتیں۔ عصر میں فرضوں کے بعد دو ۲۔ مغرب میں فرضوں کے بعد دو۲، عشاء میں بعد میں دو سنّتیں اور وتر اور فجر میں پہلے دو ۲ سنتیں پڑھتے تھے۔ رات کو تہجد دس نوافل اور ایک وتر، کبھی بارہ نوافل اور ایک وتر پڑھا کرتے تھے۔ نماز اور سلام سے پہلے دُعا تو آپ سے مروی ہے لیکن سلام کے بعد دُعا مانگنا آپ کا دستور نہیں تھا۔ (کتاب الصلوٰۃ ابن القیم ص ۲۰۴ تا آخر)
۲۔ اَلصَّلٰوۃ (نماز) صلوٰۃ کے اصل معنے دُعا کے ہیں، کیونکہ یہ سراپا ایک ادائے پکار ہے۔ کھڑے ہو کرجھُک کر اور اس کے حضور منہ کے بل گر کر نمازی اُسے پکارتا ہے، نذرانۂ عقیدت پیش کرتا ہے اور نماز کے جتنے روپ اور پہلو ہیں، بدل بدل کر زبانِ حال سے واضح کرتا ہے کہ الٰہی! اپنی زندگی کے ہر رنگ اور ہر پہلو میں تیرا ہی رہوں گا۔ تیرے ہی گن گاؤں گا اور تیری ہی رضا اور منشا کو سدا ملحوظ رکھوں گا۔
حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر خدا صد ہا رحمتیں کرے، لکھتے ہیں کہ اس نماز سے مراد، فرضی نماز بھی ہے اور نفل بھی، کبھی اس سے غرض یاد الٰہی بھی ہوتی ہے، وہ الفاظ سے ہو یا ادا سے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تک آپ اللہ کو یاد کرتے ہیں آپ نماز میں ہی ہوتے ہیں۔
فإن الصلوٰۃ أيضاً نعم الصلوٰة المعروضة والتطوع وقد يدخل فيھا كل ذكر اللّٰه اإما لفظاً أو معناً، قال ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ما دمت تذكر اللّٰه فأنت في صلوٰة (الاقتضاء ص ۱۱)
ادا اور معنوی ذکر اللہ، وہی زندگی ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے: