کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 20
نہ تھی بلکہ یہ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور سکون قلب کا ایک ذریعہ تھی (قرۃ عین لی فی الصلوٰۃ)
تصویر نماز:
قبلہ رو ہو کر اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں کی لَو تک ہاتھ اُٹھاتے۔ پھر داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینہ پر باندھتے اور تھوڑے سکتہ کے بعد ’’سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَيْنِيْ وَبَيْنَكَ، كبھی اِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْهِيّ لِلَّذِيْ فَطَرَ السمٰوٰت والأرض ...... اَللّٰھم أنت الملك لآ إلٰه إلّا أنت وأنا عبدك كبھی الله اكبر الله أكبر لا إله إلا أنت سبحان الله وبحمده، سبحان الله وبحمده پڑھتے۔
پھر أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کبھی اس کے ساتھ من نفخه ونفثه وھمزه اور کبھی: وھمزه ونفحه ونفثه کا اضافہ فرما کر تعوّذ پڑھتے۔
پھر سورہ فاتحہ پڑھتے۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے۔ رب العٰلمین پر وقف فرماتے، پھر الرحمٰن الرحیم پر ٹھہرتے۔ پھر مٰلک یوم الدین پڑھتے، ٹھہر ٹھہر کر، خوبصورت لہجہ کے ساتھ جیسے کوئی کسی خاص محوّیت میں کرتا ہے کہ اُسے دوسرا دھیان ہی نہیں ہے، ولا الضالین کے بعد ’اٰمین‘ کہتے پھر کوئی سورت پڑھتے، کبھی لمبی سے لمبی، کبھی اوسط درجہ کی اور کبھی اس سے بھی مختصر، سورت کے درمیان یا آخر سے اُچک کر کوئی ٹڑا نہیں پڑھتے تھے، بلکہ شروع سے پڑھتے، پوری پڑھتے یا کچھ ایک رکعت میں اور بقیہ دوسری رکعت میں مکمل کرتے۔ کبھی ایک ہی سورت کو دوبارہ دوسری رکعت میں پڑھتے اور کبھی دو سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھتے تھے۔ فجر کی نماز میں سب سے لمبی قرأت فرماتے تھے۔ جہرمی میں جہر سے، سری میں چپکے سے پڑھا کرتے تھے۔ یا کبھی کبھار سری میں بھی سُنانے کے لئے ایک آدھ آیت اونچی آواز سے پڑھ لیتے تھے، جمعہ میں سورۂ جمعہ و منافقین اور کبھی سورۂ اعلیٰ اور سورۂ غاشیہ تلاوت فرماتے اور عیدین میں سورت قٓ اور سورت اقترب الساعة پڑھا کرتے تھے۔ سورۃ کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں گر جاتے اور انگلیاں پھیلا کر دونوں گھٹنوں کو پکڑ لیتے، دونوں پہلوؤں سے بازو الگ، پشت پوری طرح دُہری مگر ہموار رکھتے، سر، پشت کے برابر رکھتے اور پھر یوں پُر سکون ہو رہتے جیسے آپ کا دل لگ گیا ہو، پھر سبحان ربی العظیم، کبھی سبحان ربی العظیم وبحمدہ، کبھی سبحٰنک اللّٰھم ربّنا وبحمدک اللّٰھم اغفرلی، کبھی سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ،