کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 18
چیزیں ہیں۔ ان سے نہ صرف حجابات کے پردے چاک ہوتے ہیں بلکہ ایک ایسی عالم شہود کی دولت بھی ہاتھ آجاتی ہے جو طمانیت و سکینت کے نزول کا باعث بنتی ہے۔ غیوب میں غائب ترین حقیقت کبریائی ذات باری تعالیٰ ہے اس کو تسلیم کر لینے کے معنے یہ ہیں کہ اس کی ذات اور کنہ کی ٹوہ میں پڑنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ وہ اس سے وراء الورٰی ہے کہ اس کا کوئی کما حقہ، ادراک کر سکے۔ متکلمین نے اس سلسلہ میں جو بحثیں کی ہیں وہ محض فلسفہ زدہ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے کی ہیں ورنہ ان کا قیدہ صرف یہ ہے: ؎ تو دل میں آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا بس جان گیا میں‘ تیری پہچان یہی ہے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ان خوش نصیب بندوں کی تعریف فرمائی ہے جو بعد میں آئے اور پوری دلجمی کے ساتھ ان تمام حقائق پر ایمان لائے جو آپ نے پیش فرمائے ۔ ایمان بالغیب متقی بننے کے لئے اور قرآن حکیم سے استفادہ کرنے کے لئے اوّلین شرط اور اساسِ کامل ہے اگر اس میں کوئی خامی رہ جائے تو اس کے بعد اس پر اور جتنی اور جیسی کچھ بھی عمارت کھڑی کی جائے گی، کج، کمزور اور بے نتیجہ ثابت ہو گی۔ عجمیوں کے اختلاط سے فکر و عمل کی وہ سادگی غارت ہوئی جس پر ’’عشق بردوش‘ تسلیم و رضا کی عمارت قائم تھی۔ حکمتِ قرآنی کی جگہ عجمی حکمت و فلسفہ براجمان ہوا جس کی وجہ سے ’ایمان بالغیب‘ کی ان اقدار کو سخت نقصان پہنچا جن پر ہمارے روحانی مستقبل کا انحصار تھا۔ بلکہ مسلم تنزّل اور ادبار و کبت کا آغاز اس وقت ہوا، جب ایمان بالغیب کے سلسلہ میں ان کے قلب و نگاہ میں عقلی بے اطمینانی کو بار ملنے لگا۔ الغرض ایما کی اساس اولین ’’ایمان بالغیب‘‘ پر ہے جب عقل عیار کا تیر چلا، ایمان کی معصومیت اور تسلیم و رضا کو شدید نقصان پہنچا۔ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ (اور نماز پڑھتے ہیں) (۱) وَیُقِیْمُوْنَ (اور قائم کرتے ہیں) اقامہ سے بنا ہے۔ اقامہ کے معنی کسی شے کو سیدھا کھڑا کرنے کے ہیں اور یہ قاعدہ ہے کہ جس چیز کو، اس کے مناسبِ حال سیدھا کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس شے کا ہر جز، اپنی قدرتی ضع پر آجاتا ہے۔ ساتھ ہی آپ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ سیدھا کھڑا ہونا، شے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔