کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 17
التفسیر والتعبیر بِالْغَیْبِ (۱) (۱) بِالْغَیْبِ (غیب کے ساتھ، غیب پر، پسِ پشت) اس کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا اور رسول کی بات صرف اس لئے برحق تسلیم کرنا اور ماننا کہ چونکہ اس نے فرمایا ہے۔ وہ بات ہمارے ادراک کے بس کا روگ ہو یا ہ ہو۔ دوسرے یہ کہ سامنے ہوں یا غائب اور آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں تو ہر حال میں ان کے ایمان و اسلام میں فرق نہیں آتا۔ ریاکار اور منافق کی طرح نہیں ہوتے کہ سامنے ہوں تو سبحان اللہ، پسِ پشت ہو تو اعوذ باللہ۔ ان کی جلوت اور خلوت، ظاہر اور باطن میں پوری یکسائیت ہوتی ہے۔ اس باب میں وہ بڑے مخلص، پکے اور سچے ہوتے ہیں۔ وقال بعضهم: يؤمنون بالغيب كما يؤمنون بالشهادة، وليسوا كما قال تعالى عن المنافقين وَإِذا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قالُوا آمَنَّا الآية)...... [البقرة: 14] فعلى هذا يكون قوله بالغيب حالا أي في حال كونهم غيبا عن الناس. (ابن كثیر) ہمارے نزدیک یہ دونوں معنے صحیح ہیں۔ ایمان بالغیب کسی ذہنی بوجھ اور اندھیرے میں لاٹھی گھمانے کا نام نہیں بلکہ یہ طلب و جستجو کے لئے ایک مہمیز ہے۔ اس سے حضور قلبی کی کیفیت بھی نشوونما پاتی ہے اور لِیْ مَعَ اللہِ (امیر اللہ میرے ساتھ ہے) کا احساس بھی بیدار ہوتا ہے جو بندۂ مومن کے لئے بہت بڑی معراج ہے۔ ہاں ایمان بالغیب کے اس مقامِ رفیع سے مناسبت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صرف ’’عقلی استدلال‘‘ پر قناعت نہ کی جائے کیونکہ بعض اوقات یہ بجائے ’حجابِ اکبر‘ بن جاتی ہے بلکہ چاہئے کہ اس کے ساتھ ساتھ عقلِ نبوی ذوقِ ایمانی اور نورِ عشق کی مشعلوں سے بھی استفادہ کیا جائے۔ اگر کوئی صاحب اس میں صرف انہی پر قناعت کر سکتا ہے تو ضرور کرے کیونکہ اس سفرِ حیات کے لئے اصلی زادِ راہ یہی